اسلام آباد:

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، افسوس حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بالکل بھی نہیں۔

ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن کے وقت بھی دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ہمیں جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ افغانستان پر جب امریکا نے حملہ کیا اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی، اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی، اتحاد امہ کے لیے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے بھی اسلحے کو اٹھانا غیر شرعی قرار دیا، پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ہم حرام قرار دے چکے اور اس وقت سے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟

26ویں ترمیم

مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا، اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات کیے۔

انہوں نے بتایا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے 31 دسمبر 2027ء کی تاریخ آخری ہے اور اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کورٹ میں گئے تو حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028ء کو اس پر عمل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خلاف کوئی اپیل ہوئی تو ایک سال کے اندر یہ مہلت ختم ہوگی اور فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کا کوئی چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا لیکن اب شرعی عدالت کا جج شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بحث کے لیے پیش کی جائیں گے، پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں اب اس پر بحث ہوگی۔

غیرت کے نام پر قتل

انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کے لیے دشواری؟

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت اور غیر شرعی ہے، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے۔

مسئلہ کشمیر و فاٹا انضمام

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی موقف واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے، کس طرح مشرف نے کہا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا اور بتدریج جس طرح پاکستان کشمیر سے پیچھے ہٹا یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ مودی نے جب خصوصی حیثیت ختم کی اس وقت ہم مذمتی قرارد میں خصوصی آرٹیکل 370 کا تذکرہ تک نہ کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا کا انضمام کر دیا اور اس وقت بھی کہا تھا یہ غلط کیا جا رہا ہے، خطے میں امریکی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے جغرافیائی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئیں۔ اب صوبائی حکومت خود کہتی ہے کہ انضمام کا فیصلہ درست نہیں تھا کمیشن بناتے ہیں، اب اگر آپ واپس ہٹیں گے یا صوبہ بنائیں دو تہائی اکثریت صوبائی و وفاق میں چاہیے ہوگی۔

اسرائیلی جارحیت

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے اور دو ریاستی حل صرف ایک دھوکا ہے، اسرائیل غاصب ہے۔ خالد مشعل نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 70 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا تھا کہ نوزائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی ہوگی، پاکستان نے 1940ء میں فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی اور سب سے پہلے ہم نے اسے ناجائز ریاست قرار دیا۔ حرمین بھی ہمارا ہے اور قبلہ اول بھی ہمارا ہے، مگر آج قبضہ یہود کا ہے، آج جو کچھ فلسطینیوں پر گزر رہی ہے یہ حضور اکرم کی حدیث ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایران نے اس کا جواب دیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہم اس کی بھی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاک انڈیا جنگ میں ایران نے جس طرح پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا وہ بھی لائق تحسین ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی اتحاد امت کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحم ن نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ شرعی عدالت کا کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزرا دہشتگردی کا مقابلہ کرنیوالے سیکیورٹی اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟

13 ستمبر کو جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایف سی کے 12 اہلکاروں کی نمازِ جنازہ بنوں کینٹ میں ادا کی گئی۔ اس جنازے میں وزیر اعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ آصف اور اعلیٰ عسکری حکام نے شرکت کی۔

جنازے کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد یہ سوالات اٹھنے لگے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جنازے میں شرکت کیوں نہیں کی؟ سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کی حدود میں شہید ہونے والے فوجی اہلکاروں کے جنازوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟

یہ بھی پڑھیں:

کالم نگار بلال غوری نے سوشل پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر سوال اٹھایا: ’وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بنوں میں شہدا کی نمازِ جنازہ ادا کی، زخمیوں کی عیادت کی مگر اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور یا ان کی کابینہ نظر نہیں آئی، کیا تحریک انصاف کو شہدا کی بھی کوئی پروا نہیں۔‘

وی نیوز کے اس نمائندے نے اس معاملے پر صوبائی حکومت کے ترجمان اور مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف سے رابطہ کیا، لیکن حسبِ معمول نہ انہوں نے کال اٹھائی اور نہ ہی میسج کا جواب دیا، اس کے بعد وزیر اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ملی۔

خیبرپختونخوا حکومت کے محکمہ اطلاعات کے دستاویزات کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران مشکل سے 5 یا 6 فوجی اور پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کی ہے۔

مزید پڑھیں:

ملک سعد شہید پولیس لائنز پشاور میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس رپورٹر کو بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں وزیر اعلیٰ 3 یا 4 بار ہی پشاور آئے ہیں۔

’میری یادداشت کے مطابق انہوں نے صرف 2 پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے بیشتر اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور کابینہ ارکان بھی پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شریک نہیں ہوتے۔‘

خیبرپختونخوا کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے ذاتی طور پر کئی بار وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ بات اٹھائی ہے لیکن وہ سنی اَن سنی کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

’بدقسمتی یہ ہے کہ نہ صرف وزیر اعلیٰ بلکہ کابینہ ارکان اور اراکین اسمبلی کا ریکارڈ بھی اس معاملے میں تسلی بخش نہیں، البتہ میں خود اپنے علاقے کے شہید فوجی اور پولیس اہلکاروں کے جنازوں اور فاتحہ خوانی میں ضرور شرکت کرتا ہوں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے پارٹی چیئرمین عمران خان بھی فوجی اور پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور اسی روش کو دیگر رہنماؤں نے بھی اپنایا ہے۔

ریکارڈ کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین نے آخری بار 25 اگست 2025 کو فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 3 اہلکاروں کے جنازے میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ہمراہ شرکت کی تھی۔

مزید پڑھیں:

خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق رواں سال کے پہلے 8 ماہ میں 92 پولیس اہلکار شہید ہوئے، جن کی نمازِ جنازہ متعلقہ اضلاع کی پولیس لائنز میں ادا کی گئی، ان میں سے بہت کم جنازوں میں صوبائی وزرا یا اراکین اسمبلی شریک ہوئے۔

دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ 2008 سے 2013 کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں اس وقت کے صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین اور کابینہ ارکان باقاعدگی سے جنازوں اور فاتحہ خوانی میں شرکت کرتے تھے۔

رواں سال شمالی وزیرستان، خیبر، مہمند، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں درجنوں فوجی اہلکاروں کی نمازِ جنازہ پشاور کینٹ میں ادا کی گئی جن میں تقریباً ہر بار فیلڈ مارشل عاصم منیر شریک ہوئے، لیکن صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ ان تقریبات میں موجود نہ تھا۔

مزید پڑھیں:

پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما اور رکن اسمبلی نے اس رپورٹر کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے تمام اراکین کو بخوبی معلوم ہے کہ 2024 کے انتخابات میں انہیں ووٹ ان کی ذاتی کاوش سے زیادہ عمران خان کی وجہ سے ملا۔

’اس لیے جنازوں یا سماجی تقریبات میں شرکت کو وہ اہمیت نہیں دیتے۔ بلکہ بعض اوقات ان کی شرکت مسائل بھی پیدا کر دیتی ہے کیونکہ ورکرز سوالات کرتے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور وزیر اعلی

متعلقہ مضامین

  • معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی
  • مالی نظام کی بہتری کیلئے بلوچستان میں الیکٹرانک سسٹم متعارف
  • امت مسلمہ کو باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمان
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ
  • چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
  • زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان
  • رہنماء کی گرفتاری قابل مذمت، کسی دباؤ میں نہیں آئینگے، جے یو آئی کوئٹہ
  • وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزرا دہشتگردی کا مقابلہ کرنیوالے سیکیورٹی اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟