ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست روی کا مسئلہ حل کردیا گیا، پی ٹی سی ایل کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) نے دعویٰ کیا ہے کہ ایشیا-افریقہ-یورپ-ون (اے اے ای-1) سب میرین کیبل کی خرابی سے پیدا ہونے والی انٹرنیٹ کی سست روی کو حل کردیا گیا ہے۔ترجمان پی ٹی سی ایل کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اے اے ای-1 سب میرین کیبل کی خرابی سے پیدا ہونے والی انٹرنیٹ سست رفتاری کو حل کردیا گیا ہے۔
ترجمان پی ٹی سی ایل کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سروسز اب مکمل طور پر بحال ہیں اور براؤزنگ ہموار ہے، پی ٹی سی ایل نے اضافی بینڈوڈتھ شامل کی تاکہ مسئلے کے دوران خلل کم سے کم ہو۔پی ٹی سی ایل کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ میٹا سروسز (واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام) مکمل طور پر فعال ہیں اور ان کی سروسز بھی مکمل طور پر بحال ہیں۔ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پی ٹی سی ایل کی ٹیموں نے مکمل کنیکٹیویٹی کی بحالی کے لیے انتھک محنت کی ہے، پی ٹی سی ایل اپنے صارفین کے صبر اور تعاون کے لیے شکریہ ادا کرتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 2024 میں فروری میں عام انتخابات سے قبل ہی ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے سسٹ انٹرنیٹ کی شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں۔3 جنوری کو پی ٹی سی ایل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو جوڑنے والی اے اے ای ون انٹرنیٹ کیبل میں خرابی کی وجہ سے ملک میں نیٹ ورک کی رفتار سست ہونے کے بعد صارفین کو درپیش مسائل کو دور کرنے کے لیے ٹیمیں کام کررہی ہیں۔اس کے ایک روز بعد، اس کے ایک روز بعد وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے کہا تھا کہ بینڈوتھ کی کمی کا تقریبا 80 فیصد کام پورا کرلیا گیا کیوں کہ کیونکہ ٹریفک کو دو دیگر کیبلز پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
9 جنوری کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) نے بتایا ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی یا زیر سمندر سب میرین کیبل ’ایشیا افریقہ یورپ ون‘ (اے اے ای-1) کی مرمت کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ہے۔تاہم، پی ٹی سی ایل کے ترجمان عامر پاشا کا کہنا تھا کہ سست روی سے نمٹنے کے لیے پی ٹی سی ایل نے اضافی بینڈوتھ کا انتظام کیا ہے جس سے کسی حد تک انٹرنیٹ کی سست روی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ آج سنایا جائےگا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انٹرنیٹ کی سست روی پی ٹی سی ایل اے اے ای کے لیے گیا ہے تھا کہ
پڑھیں:
امکانی طویل جنگ اور مسئلہ فلسطین کا حل
کسی بھی جنگ کو اپنی مرضی سے شروع تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے اپنی خواہش کے مطابق ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جنگ دو ملکوں اور فریقوں کے درمیان ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک فریق جنگ کی شروعات کرتا ہے اور دوسرا فریق جارحیت یا بدلہ لینے کے لئے جوابی وار کرتا ہے۔ اگر دوسرا ملک تگڑا جواب دے دے تو ہزیمت سے بچنے کے لئے جنگ میں پہل کرنے والا ملک اس پر دوبارہ حملہ کرتا ہے۔ جنگ کسی بھی فریق، پارٹی یا ملک کو سہنی پڑے تو وہ اپنی بقا اور سلامتی کے لئے جارحیت کا جوابی حملہ ہر قیمت پر کرتا ہے، اور حملوں کا یہ عمل دو ملکوں کے درمیان بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اگر یہ جنگ دو مذہبی اور نظریاتی دشمن ملکوں کے درمیان ہو تو، دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ جارح یا دفاع کرنے والے ملک کو فتح یا شکست نہیں ہو جاتی ہے۔
لہٰذا یہ مصدقہ جنگی حقیقت ہے کہ اگر دو ملکوں کے درمیان ایک بار جنگ شروع ہو جائے تو وہ کبھی بھی برابری کی سطح پر ختم نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ دو ملکوں کی جنگ میں جیت ہوتی ہے اور یا پھر ہار ہوتی ہے۔
ایران اسرائیل کی حالیہ جنگ اسرائیل نے ایران پر حملے میں پہل کر کے شروع کی، اب اگر اسرائیل یا ایران چاہیں بھی تو 13 جون کو ایران پر اسرائیلی حملے سے شروع ہونے والی یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے بغیر ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی نما تحریری بیان جاری کر کے جنگ بندی کا اشارہ دیا کہ، ’’ایران کو بار بار ڈیل کرنے کا موقع دیا، ایران جلد معاہدہ کرے، اِس سے پہلے کہ ایرانی سلطنت کہلائے جانے والے علاقے کا کچھ باقی نہ رہے،‘‘ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے سٹرٹیجک پارٹنرز بھی رخ بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک روز سعودی عرب نے قابل تحسین اقدام یہ کیا کہ جس کے تحت حکومت نے ایرانی حجاج کو حالات کے بہتر ہونے تک سعودیہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے کر انہیں سرکاری مہمانوں کا درجہ دیا۔ اس سے اگلے روز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ آج پوری اسلامی دنیا ایران کی سپورٹ میں متحد ہے۔ اگرچہ امریکی صدر نے اسرائیل کے حملے سے پہلے مشرق وسطی کا کامیاب دورہ کیا اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر وغیرہ سے فوجی اور سرمایہ کاری کے تاریخی معاہدے کیے۔ لیکن اسرائیلی جارحیت اور ایران کی جوابی کاروائی کے بعد کیا ہوا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی و سینٹ کی قرار دادوں اور وزیر دفاع کے پالیسی خطاب نے امریکی توقعات کی امیدوں پر پانی پھیر دیا!
اسرائیل کے پہلے حملے میں ایران کی فوجی تنصیبات، جرنیلوں، سائنس دانوں اور ایران کے درجنوں معصوم شہریوں کی شہادتوں سے ایران کا جتنا نقصان ہوا اور پھر جس طرح ایران نے اسرائیل پر میزائیلوں اور ڈرونز کے ذریعے شدت سے جوابی حملہ کیا، اور پھر دوسرا حملہ بھی کر ڈالا جس سے تل ابیب اور حیفہ لرز اٹھے، اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ ماضی کے برعکس ایران اسرائیل کے درمیان حقیقی دشمنی کی یہ جنگ، جیسا کہ ماضی میں کہا جاتا تھا، کم از کم ’’نورا کشتی‘‘ نہیں ہے جسے ایران، اسرائیل یا امریکہ چاہیں بھی تو وہ کسی فیصلہ کن موڑ پر پہنچے بغیر ختم نہیں کر سکتے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ ایران کے پاس پندرہ سو سے دو ہزار میزائلوں کا محدو ذخیرہ ہے اور جب وہ ختم ہو گا تو جنگ فطری طور پر ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی جنگی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ’’ایں خیال است و محال است‘‘ کے مصداق، جنگ بندی آسانی سے نہیں ہو گی۔ ایران کو جہاں اسلحہ کی رسد اس کے اتحادی پہنچائیں گے، وہاں ایران وقت آنے پر’’آبنائے ہرمز‘‘ کا راستہ بند کرے گا جس سے دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں دگنی ہو جائیں گی اور اسرائیل کے اتحادیوں سمیت عالمی معیشت کو بھی اتنا بڑا جھٹکا لگے گا کہ صرف اسی ایک جھٹکے کے اثرات سے نکلتے دنیا کو کم و بیش دو سال سے زیادہ کا عرصہ لگے گا۔ اس دوران ایران اسرائیل کے خلاف ’’گوریلا وار‘‘ شروع کر سکے گا۔ اگر امریکہ سمیت اسرائیل کے جنگی اتحادی جنگ میں کود پڑے یا انہوں نے آیت اللہ کی حکومت بظاہر ختم بھی کر لی (جیسا کہ وہ چاہتے ہیں) تو اس کا دائرہ تہران تک محدود ہو گا اور وہ بھی افغانستان کے کرزئی کی حکومت جیسی مظلوم حکومت ہو گی اور آیت اللہ کی گوریلہ وار جس کا نشانہ نرم مغربی اور اسرائیلی ٹارگٹس ہوا کریں گے، اس سے مڈل ایسٹ میں بھی وہ شورش برپا ہوگی جس سے عرب بادشاہتوں کے پائوں اکھڑ سکتے ہیں۔ ( جاری ہے )