Daily Ausaf:
2025-04-25@06:01:06 GMT

قرآن کریم کے حقوق

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو قیامت تک نسلِ انسانی کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور اس وقت ان آسمانی کتابوں میں سے صرف وہی محفوظ حالت میں موجود ہے جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل ہوئیں۔ قرآن کریم نہ صرف پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہے، بلکہ سب سے زیادہ پڑھا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ سنا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اعزاز اور اعجاز عطا فرمایا ہے کہ دن بدن اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دنیا میں جوں جوں مسلمانوں کی حالت پتلی ہو رہی ہے قرآن کریم کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ اس وقت بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ حافظ قرآن کریم موجود ہیں، جو دن رات قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور رمضان المبارک چونکہ قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے، اس لیے اس مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
قرآن کریم کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو ”ذکر“ کے لیے آسان کر دیا ہے۔ اس ”ذکر“ کا معنی یہ بھی ہے کہ یاد کرنے کے لیے قرآن کریم کو آسان کر دیا گیا ہے، جس کا ہم گزشتہ چودہ سو برس سے مسلسل مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یہ بڑی آسانی سے یاد ہو جاتا ہے، بچوں کو بھی یاد ہوتا ہے اور بوڑھے بھی اسے یاد کر لیتے ہیں، مرد بھی یاد کرتے ہیں اور عورتوں کو بھی حفظ ہو جاتا ہے۔ میں نے سات سال کی بچی بھی قرآن کریم کی حافظہ دیکھی ہے اور ساٹھ سال کی خاتون کو بھی قرآن کریم یاد کرتے اور مکمل کرتے دیکھا ہے۔ یہ قرآن کریم کی صداقت کی دلیل اور اس کا اعجاز ہے، جو ہمارے زوال کے دور میں بھی پوری قوت کے ساتھ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
اسی طرح ”ذکر“ کا یہ معنی بھی ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں عام انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے عام فہم زبان اور عام فہم اسلوب اختیار کیا ہے۔ انسانوں میں ذہنی، علمی اور فکری حوالے سے جتنے درجات بھی ہیں، ان سب کے لیے قرآن کریم میں ان کی ذہنی سطح پر گفتگو کا سامان موجود ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے ان کی ذہنی سطح پر بات کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مشکل سے مشکل مسئلے میں ایک عام انسان کو سمجھانے کے لیے اس کی نفسیات اور ذہنی سطح کا لحاظ رکھا ہے۔
ایک مثال سے اس بات کا جائزہ لے لیجئے کہ ہم جب چار پانچ سال کے بچے کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں تو اسے سب سے پہلے اس کے اردگرد ماحول میں موجود اور اس کے مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے نام بتائے جاتے ہیں۔ الف انار اور اے ایپل اسی کی عملی صورت ہے۔ یہ تعلیم کا بالکل ابتدائی لیول ہوتا ہے اور نسلِ انسانی کی تعلیم کا جب آغاز ہوا تھا تو آدم علیہ السلام کو بھی سب سے پہلے چیزوں کے نام ہی بتائے گئے تھے۔ اسے مشاہدات کی زبان کہتے ہیں کہ اردگرد مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے نام اور فائدے بتا کر ایک بچے کی تعلیم شروع کی جاتی ہے۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ہمیں بہت سی باتیں سمجھانے کے لیے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی قدرت اور اس کی توحید کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کیا جائے تو یہ مشکل ترین مسائل شمار ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ مسائل سمجھانے کے لیے اردگرد کے مشاہدے کی دعوت دی ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ زمین کو دیکھو، آسمان کو دیکھو، سورج اور چاند کے نظام کو دیکھو، درخت اور پودے دیکھو، ہوا اور پانی کے سسٹم کو دیکھو، بادل برستے دیکھو اور خود اپنے وجود اور جسم کے اندر کی صلاحیتوں کو دیکھو کہ یہ کس نے بنائی ہیں، ان کا خالق کون ہے اور ان کو ایک سسٹم کے مطابق کون چلا رہا ہے؟ تمہیں خودبخود خدا کے وجود کا پتہ چل جائے گا، اس کی قدرت کا اندازہ ہو گا اور اس کی توحید پر تمہارا یقین پختہ ہو گا۔
ایک جگہ فرمایا کہ یہ زمین، آسمان، چاند اور ستاروں کا جو نظام پورے ضبط اور یکسانیت کے ساتھ چل رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلیل ہے۔ اس لیے کہ اگر اس معاملے میں کسی اور کے پاس بھی کچھ اختیار ہوتا تو یہ سارا نظام اتھل پتھل ہو جاتا، پھر ہر خدا اپنی پیدا کردہ چیزیں لے کر الگ کھڑا ہوتا اور سب ایک دوسرے پر برتری اور غلبے کی کوشش میں لگ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں توحید کا فلسفہ مکھی اور مکڑی کی مثالوں سے سمجھایا ہے اور ایسے عام فہم انداز میں بات کی ہے کہ ایک سیدھا سادا دیہاتی اور ان پڑھ آدمی بھی توحید کے فلسفے کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔
قرآن کریم جہاں یاد کرنے کے لیے آسان ہے، وہاں سمجھنے کے لیے بھی آسان ہے، لیکن سمجھنے کے لیے آسان ہونے کے مختلف درجات ہیں اور ان کا فرق نہ کرنے کی وجہ سے فکری الجھنیں اور گمراہیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک ہے قرآن کریم کے پیغام اور نفسِ مفہوم کو سمجھنا اور کسی آیت کریمہ کو پڑھ کر یا سن کر اس کا مقصد سمجھ لینا، یہ تو ہر مسلمان کے لیے آسان ہے، ضروری ہے اور اس پر قرآن کریم کا حق ہے۔ لیکن کسی آیت پر علمی بحث کرنا، اس سے مسائل مستنبط کرنا اور اس کے اصول و احکام اخذ کرنا اس کا یہ لیول نہیں ہے، اس کے لیے بہت سے علوم کے ساتھ واقفیت ضروری ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور کسی ملک کی کوئی عدالت کسی قانون شکنی کرنے والے کا یہ عذر قبول نہیں کرتی کہ چونکہ اسے قانون کا علم نہیں تھا، اس لیے اس نے اس کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف قانون کے عمومی مطالعہ کی بنیاد پر عدالت عالیہ میں کھڑا ہو کر دستور و قانون کی تشریح اور اس پر ”آرگو“ کرنے کا حق مانگے گا تو وہ اسے نہیں ملے گا، اس لیے کہ اس کا معیار بالکل مختلف ہے اور اس کا پراسیس قطعی طور پر الگ ہے۔ اس کے لیے لاء کی ڈگری، بار کا لائسنس اور وکالت کا تجربہ درکار ہے، اس کے بغیر کسی کو قانون کے عام مطالعہ کی بنیاد پر قانون کی تشریح و تعبیر کا حق نہیں ملتا۔
یہی صورت حال قرآن کریم کے حوالے سے ہے کہ اس کے عام امیج کو سمجھنا اور اس کے بنیادی احکام سے واقف ہونا ہر مسلمان کا حق اور اس کی ذمہ داری ہے، لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کی تعبیر و تشریح کے لیے بحث کرنا ہر شخص کا حق نہیں ہے اور اس کے لیے اسی طرح علوم دینیہ کی ڈگری اور تدریس و تعلیم کا تجربہ شرط ہے، جیسے قانون کی تعبیر و تشریح میں حصہ لینے کے لیے شرائط موجود ہیں۔
اس حوالے سے ہم بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے سرے سے کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ جب تک پورا عالم دین نہیں ہو گا وہ قرآن کریم کو نہیں سمجھ پائے گا اور دوسری طرف یہ رجحان عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی چند آیات کا ترجمہ کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے، وہ دین کے ہر معاملے میں خود کو اتھارٹی تصور کرنے لگتا ہے اور ہر مسئلے میں ٹانگ اڑا کر اپنی تعبیر و تشریح کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سمجھنے کے لیے قرا ن کریم کو قرا ن کریم کے قرا ن کریم کی کے لیے ا سان اللہ تعالی اور اس کے جا رہا ہے تعلیم کا جاتا ہے اس لیے ہے اور یاد کر کو بھی لیے اس

پڑھیں:

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

اسلام ٹائمز: اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ تحریر و آزاد تجزیہ: سید نوازش رضا

2025ء کا سال لبنان، شام، فلسطین اور پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک انقلابی دور بن چکا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، جولانی کی مغرب نواز حکومت کا قیام، حزب اللہ کی قیادت بشمول سید حسن نصراللہ کی شہادت، اور اسرائیل کی لبنان میں براہ راست عسکری موجودگی جیسے عوامل نے پورے خطے کا توازن بدل دیا ہے۔ ان حالات میں لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور مغربی طاقتیں اسے لبنان کے امن کی ضمانت بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ۔۔ کیا یہ واقعی امن کی کوشش ہے یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات، حقیقت ہے یا فریب؟
اس وقت دنیا کو جو بیانیہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے "لبنان کی خودمختاری اور امن کے لیے، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے!" لیکن کیا یہ واقعی لبنان کے حق میں ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ امریکہ اور اسرائیل کی ترجیح ہے کیونکہ حزب اللہ وہ واحد قوت ہے جس نے اسرائیل کو نہ صرف روک کر دکھایا بلکہ 2006ء کی جنگ میں سیاسی و عسکری سطح پر شکست دی۔ اگر آج حزب اللہ کے ہتھیار لے لیے جائیں تو لبنان مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے گا جبکہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ لبنان کی سرحد پر بیٹھا ہے۔ تو کیا یہ برابری کا نظام ہوگا؟ کیا یہ امن ہوگا یا کمزوروں کو مزید کمزور کرنا ہوگا؟

لبنانیوں کے سامنے شام کا تجربہ ہے
بشار الاسد کی حکومت کا امریکہ، مغرب، ترکی اور اسرائیل کی حمایت سے مسلح گروہوں کے ذریعے تختہ الٹا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ اسرائیل نے شام کی فوجی طاقت کو تباہ کر دیا، جولان کی پہاڑیوں سے نیچے آگیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ آج شام کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور ملک مکمل طور پر اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شام کی آزادی، خودمختاری اور مزاحمت ختم ہو چکی ہے۔ کیا لبنانی بھی یہی تجربہ دہرانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسرائیل اور امریکہ پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟

حزب اللہ کی طاقت اور اس کا کردار
یہ سچ ہے کہ حزب اللہ کے پاس ریاست جتنی طاقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اس طاقت کا غلط استعمال کیا؟ کیا وہ لبنان کی حکومت کا تختہ الٹنے نکلے؟ کیا انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو اپنے شہریوں پر آزمایا؟ حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی طاقت کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کیا ہے، اسرائیل کے خلاف مزاحمت۔ جب شام میں داعش اور تکفیری گروہ آئے تو حزب اللہ لبنان کی سرحدیں بچانے کے لیے آگے آئی جبکہ باقی سیاست دان صرف بیانات دے رہے تھے۔

حزب اللہ لبنان میں ایسی جماعت نہیں ہے جسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جائے۔ اس کا سیاسی و عسکری ڈھانچہ منظم اور طاقتور ہے۔ لبنانی سیاست پر اس کی گرفت ہے اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اس کے حامی اور شیعہ افراد موجود ہیں۔ یہ ایک ریاست کے اندر مکمل طاقتور ریاستی نیٹ ورک رکھتی ہے۔ اس کے فلاحی کام صرف شیعہ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ سنی اور عیسائی آبادیوں میں بھی اس کا فلاحی نیٹ ورک متحرک ہے۔ اسکول، اسپتال، امدادی تنظیمیں۔ سب حزب اللہ کی خدمات کا حصہ ہیں۔

حزب اللہ کی کمزوری، ایک تاثر یا حقیقت؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ اب کمزور ہو چکی ہے۔ اس کا سبب ہے کہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ، جس کے باعث حزب اللہ کی سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔ سید حسن نصراللہ سمیت کئی اعلیٰ قیادتوں کی شہادت، جس سے تنظیم کو گہرا دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اس کے اسلحہ ڈپو اور قیادت کو نشانہ بنایا گیا لیکن کیا یہ کمزوری عارضی ہے یا مستقل؟ کیا حزب اللہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے؟ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ حزب اللہ اب بھی منظم، مسلح اور نظریاتی طور پر مزاحمت کے لیے تیار ہے۔

اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کردیا جائے، پھر کیا ہوگا؟
اگر حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے تو کیا اسرائیل اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا؟ نہیں۔ بلکہ وہ اور آگے بڑھے گا، یہی اس کی پالیسی رہی ہے: ’’خطرہ ختم ہو تو قبضہ بڑھاؤ‘‘۔ لبنان کی فوج کیا اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے؟ سادہ جواب ہے کہ نہیں۔ وہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے۔ تو پھر کیا لبنان اپنی بقاء کے لیے امریکہ، فرانس یا اقوام متحدہ پر انحصار کرے؟ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سب طاقتوروں کے ساتھ ہوتے ہیں، کمزوروں کے ساتھ نہیں۔

کیا حزب اللہ کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے؟
بالکل نہیں، کوئی بھی انسانی ادارہ، چاہے وہ مذہبی ہو یا عسکری، تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا لیکن تنقید کا معیار یہ ہونا چاہیئے، اگر حزب اللہ نے کرپشن کی ہو، لبنانی عوام کو لوٹا ہو، فرقہ واریت کو بڑھایا ہو، یا ذاتی مفاد کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوں تو وہ تنقید کے قابل ہیں، لیکن اگر کسی گروہ نے صرف دشمن کے خلاف مزاحمت کی ہو، غریب علاقوں میں فلاحی نظام قائم کیا ہو، دفاعِ وطن کی خاطر جانیں قربان کی ہوں، تو پھر حزب اللہ کے خاتمے کا مطالبہ حکمت نہیں بلکہ قومی خودکشی ہے۔

نتیجہ: ایک جائز سوال
اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔

اصل تحریر:
https://hajij.com/en/articles/political-articles-analysis/item/2935-the-campaign-to-disarm-hezbollah-a-peace-effort-or-the-agenda-of-the-powerful

متعلقہ مضامین

  • دریائے راوی میں ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • حج ایک مقدس فریضہ ہے جسکے لئے بلاوا بھی اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے،چیئرمین سی ڈی اے
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی روضۂ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر حاضری
  • مقبوضہ کشمیر، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے حالات غیر مستحکم
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • بُک شیلف
  • کیا پاکستان میں یکم مئی عام تعطیل کا دن ہوگا؟
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟