وہ عالمی رہنما جن کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پر سزا کا سامنا کرنا پڑا
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جس پر حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ آج کے فیصلے سے ملک میں قانون کی حکمرانی بحال ہوئی، جبکہ پی ٹی آئی نے اسے انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔
آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ اس سے قبل کتنے عالمی رہنماؤں کو بدعنوانی پر سزا سنائی جاچکی ہے۔
سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو 2021 میں بدعنوانی اور اثر و رسوخ کے غلط استعمال پر ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے عدلیہ کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں 190 ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان کو 14، بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزا، القادر ٹرسٹ کی زمین بھی تحویل میں لینے کا حکم
نکولس سرکوزی فرانس کے دوسرے صدر بنے جو بدعنوانی میں مجرم ٹھہرائے گئے، اس سے پہلے 2011 میں ژاک شیراک کو بھی بدعنوانی کے الزام میں سزا ہوئی تھی۔
ژاک شیراک 1995 سے 2007 تک فرانس کے صدر رہے، ان کو پیرس کے میئر کے طور پر اپنی مدت کے دوران بدعنوانی پر سزا سنائی گئی تھی۔
اس کے علاوہ فرانس کے سابق وزیراعظم فرانسوا فیلون کو 2020 میں دھوکہ دہی اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال پر 4 سال قید کی سزا دی گئی۔
برازیل کے موجودہ صدر لوئیز لولا ڈی سلوا جو 2003 سے 2010 تک بھی صدر رہ چکے ہیں، وہ 2017 میں ایک تعمیراتی کمپنی سے سیاسی فوائد کے بدلے سمندر کنارے پر ایک اپارٹمنٹ قبول کرنے کے جرم میں مجرم ٹھہرائے گئے تھے۔ انہیں 9 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم ان کی سزا 2021 میں منسوخ کردی گئی، جس کے بعد انہوں نے سیاسی طور پر دوبارہ عروج حاصل کیا۔
اکتوبر 2022 میں لوئیز لولاڈی سلوا نے ملک کی تاریخ کے سب سے مشکل انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت وہ برازیل کے صدر کے طور پر کام کررہے ہیں اور ان کو ایک نئے مقدمے کا سامنا بھی ہے۔
جنوبی افریقہ کے سابق صدر جیکب زوما کو 2021 میں عدالت کی توہین کرنے پر 15 ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ وہ 2009 سے 2018 تک جنوبی افریقہ کے صدر رہے، اور ان پر بدعنوانی کے متعدد الزامات تھے۔
جنوبی کوریا کی سابق صدر پارک گیون ہائی کو 2018 میں بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا سنائی گئی۔ پارک گیون ہائی 2013 سے 2017 تک صدر رہیں۔ عدالت نے پایا کہ انہوں نے جنوبی کوریائی کمپنیوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے دوست کے چلائے گئے اداروں کو لاکھوں ڈالر دیں اور انہیں 2018 میں 22 سال قید کی سزا سنائی تاہم۔ صحت کی خراب حالت کے باعث انہیں 69 سال کی عمر میں جلد رہائی ملی۔
ارجنٹینا کی سابق صدر کرسٹینا فرنانڈیز ڈی کرچنر جو 2007 سے 2015 تک ملک کی صدر رہیں، 2022 میں اربوں ڈالر کے فراڈ کیس میں مجرم ٹھہریں اور انہیں 6 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اٹلی کے 4 بار وزیراعظم رہنے والے سلویو برلسکونی کو 2012 میں ٹیکس فراڈ پر سزا سنائی گئی۔ اس کے علاوہ 2013 میں ان کو ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کے الزام میں سزا دی گئی۔
ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق جو 2009 سے 2018 تک وزیراعظم رہے، ان کو ایک اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام پر 12 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس کے علاوہ ملائیشیا کے ہی سابق وزیراعظم محی الدین یاسین کو کوویڈ 19 وبا کے دوران حکومت کے ٹھیکے دینے میں اختیارات کے غلط استعمال اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہیں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم بعد میں ضمانت پر رہائی ملی۔
تھائی لینڈ کی پہلی خاتون وزیراعظم ینگ لک شیناوترا کو چاول کی سبسڈی اسکیم میں غفلت برتنے پر 5 سال قید کی سزا سنائی گئی، جس سے اربوں کا نقصان ہوا۔ ینگ لک نے اگست 2017 میں ملک چھوڑ دیا تھا جب انہیں سزا سنائی جانی تھی۔
اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرت 2016 اور 2017 میں امریکی تاجر سے نقدی اور یروشلم میں رہائشی منصوبے کے سلسلے میں رشوت لینے پر 16 ماہ قید کاٹ چکے ہیں۔
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک جو 2011 میں عرب بہار کے دوران اقتدار سے ہٹ گئے، کو 2015 میں ریاستی فنڈز میں خورد برد کرنے پر 3 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں ’خدا نے آپ کو سزا دی ہے‘، بی جے پی رہنما کا ریسلر ونیش پھوگاٹ پر دھوکا دہی کا الزام
2019 میں سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کو بدعنوانی کے الزام میں 2 سال سوشل ریفارم کی جیل میں سزا دی گئی۔ یہ سزا 75 سالہ البشیر جیسے بزرگ مجرموں کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بدعنوانی سابق وزیراعظم سزا عالمی رہنما عمران خان کرپشن وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بدعنوانی عالمی رہنما وی نیوز سال قید کی سزا سنائی گئی کی سزا سنائی گئی تھی بدعنوانی کے الزام کے سابق اور ان
پڑھیں:
صفائی ستھرائی کے دعوے دھرےرہ گئے، کراچی عید پر کچرے کا ڈھیر بن گیا، میئر ا الزامات تک محدود،منعم ظفر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کاکہناہے کہ کراچی کے شہری اس وقت بدترین بلدیاتی بحران کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب غزہ کے عوام ایمان و صبر کی بنیاد پر بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں، لیکن عالمی طاقتیں صرف قراردادوں تک محدود ہیں، ظلم کو روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے عید کے دوسرے روز مختلف علاقوں کے دورے اور الخدمت کے تحت جاری فلاحی سرگرمیوں کے جائزے کے موقع پرگفتگو کرتے ہوئے منعم ظفر خان نے کہا کہ شہر کراچی میں صفائی ستھرائی کی صورتحال تشویشناک ہو چکی ہے، عید کے موقع پر پانی اور بجلی تک میسر نہیں، چرم قربانی کو اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے کراچی کے تمام اداروں پر قبضہ جما رکھا ہے، اختیارات کی منتقلی کے دعوے محض کاغذی ہیں، 28ویں ترمیم کے تحت صوبوں نے تمام اختیارات اپنے پاس تو لے لیے لیکن یوسیز اور ٹاؤنز کو اختیارات نہیں دیے گئے، ماضی میں سینیٹری نظام کا بڑا حصہ مقامی سطح پر ہوتا تھا، آج یہ سارا نظام تباہ ہو چکا ہے۔
منعم ظفر خان نے پیپلز پارٹی، وزیر اعلیٰ سندھ اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے مطالبہ کیا کہ وہ کراچی کے شہریوں کو جینے کا حق دیں۔ ٹاؤنز کو مشینری فراہم کی جائے، اور صفائی ستھرائی کے نظام کو فوری بحال کیا جائے تاکہ شہر میں تعفن اور بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہو۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کے تحت الخدمت فاؤنڈیشن شعبہ صحت، تعلیم، ارفن سپورٹ پروگرام، میت بس سروس، سستا علاج، آغوش ہومز اور بنو قابل جیسے کامیاب منصوبے چلا رہی ہے۔ صرف بنو قابل پروگرام سے اب تک 48 ہزار نوجوان استفادہ کر چکے ہیں۔ یہ سب امانت داری اور شفافیت کے اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ الخدمت کا ارفن کلیکشن صرف مال جمع کرنے تک محدود نہیں بلکہ یتیم بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے سنجیدہ عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ملک بھر میں 20 سے زائد آغوش ہومز قائم ہیں، جہاں معیاری تعلیم، کفالت اور تربیت کا انتظام موجود ہے۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جماعت اسلامی ہر سطح پر عوامی مسائل کو اجاگر کرے گی اور ان کے حل کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔