اسلام آباد ائرپورٹ راولپنڈی کی حدود میں شامل
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
اسلام آباد ( نمائندہ جسارت)اسلام آباد ائر پورٹ کو مکمل طور پر راولپنڈی کی حدود میں شامل کردیا گیا ہے۔ہوم ڈپارٹمنٹ پنجاب نے اٹک کے 5 دیہاتوں کو راولپنڈی کی حدود قرار دیتے ہوئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اسلام آباد ائر پورٹ کا رن وے،اے ایس ایف کالونی، مین ٹرمینل بلڈنگ اور 3کلو میٹر کا ایریا اٹک کی حدود میں شامل تھا۔ اس اقدام سے رن وے، ٹرمینل بلڈنگ اور رہائشی کالونی اب راولپنڈی کی حدود میں ہوگی۔ اٹک اور راولپنڈی کی حدود کی وجہ سے قانونی مسائل میں مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اب اسلام آبادائر پورٹ کے تمام علاقوں کو تھانہ نصیر آباد سے منسلک کر دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: راولپنڈی کی حدود کی حدود میں اسلام ا باد
پڑھیں:
پاکستان نے فضائی حدود بند رکھی تو ایئر انڈیا کو 5 ہزار کروڑ کا نقصان ہوگا، سی ای او کا انکشاف
پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کے لیے فضائی حدود کی بندش میں مزید ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے، جو اب 24 جون 2025 کی صبح 5 بج کر 29 منٹ تک مؤثر رہے گی۔ اس سے قبل پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نوٹم (NOTAM) 24 مئی کو ختم ہونا تھا، تاہم دونوں ملکوں نے باہمی طور پر یہ بندش برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انڈیا ڈاٹ کام کے مطابق ایئر انڈیا کے سی ای او کیمبل ولسن نے انکشاف کیا ہے کہ اگر پاکستان نے اپنی فضائی حدود سال بھر کے لیے بند رکھی تو ایئر انڈیا کو تقریباً پانچ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ حکومت نے تمام ایئرلائنز سے کہا ہے کہ وہ فضائی حدود کی بندش کے باعث ہونے والے ممکنہ نقصانات کا تخمینہ لگائیں۔ ایئر انڈیا کے مطابق پروازوں کو متبادل اور طویل راستوں سے گزرنا پڑ رہا ہے، جس سے پرواز کا وقت، ایندھن کی کھپت اور لاگت بڑھ گئی ہے، جو براہ راست آمدنی کو متاثر کر رہا ہے۔
کیمبل ولسن نے بتایا کہ ‘آپریشن سندور’ کے بعد جب پاکستان نے فضائی حدود بند کی تو ایئر انڈیا کو 13 شہروں کے ہوائی اڈے بند کرنا پڑے تھے، جس کے باعث ایک ہزار کے قریب پروازیں منسوخ ہوئیں اور سات ہزار سے زائد مسافر متاثر ہوئے۔
فضائی حدود بند ہونے کی وجہ سے ایئر انڈیا ہی نہیں، دیگر بڑی ایئرلائنز بھی اسی طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر پاکستان نے طویل مدت تک فضائی حدود بند رکھی تو یہ کمپنیاں بھی بڑے مالیاتی نقصانات سے دوچار ہوں گی۔ ایئر لائنز نے متبادل راستوں کی تجاویز بھی دی ہیں تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے، اور مطالبہ کیا ہے کہ نیٹ ورک پلاننگ کو زیادہ لچکدار بنایا جائے۔