پولیس کی حراست میں گاڑی چوری کا ملزم پراسرار طور پر ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) پولیس کی حراست میں گاڑی چوری کا ملزم پراسرار طور پر ہلاک ہوگیا۔ پولیس نے الزام کی تردید کر دی ۔تفصیلات کے مطابق شاہ لطیف پولیس نے 4ملزمان کو گاڑی چوری کرنے کے الزام میں 2 روز قبل گرفتار کیا تھا،گرفتار ملزمان میں حبیب اللہ ولد جمروز خان، عبدالعزیز ولد صالح محمد ، عبید اللہ ولد اورنگزیب،اور حیات ولد جمعہ گل شامل تھے۔ پولیس کا مؤقف سامنے آیا ہے کہ ملزم حبیب اللہ نشے کا عادی تھا۔اچانک طبعیت خراب ہونے پر 40 سالہ ملزم حبیب اللہ جناح اسپتال وارڈ نمبر 5 میںداخل کرایا گیا ،ملزم جناح اسپتال میں زیر علاج تھا دوران علاج اس کی موت واقع ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسپتال کے رپورٹ میں بھی ملزم کی موت کا سبب ڈرگز کے اوور ڈوز کی وجہ سے بتائیں گئی ہے۔ پولیس کسٹڈی میں ملزم پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔ جبکہ لواحقین کا کہنا ہے کہ حبیب اللہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم مجسٹریٹ کی نگرانی میں کیا جائے گا۔ایس ایچ او تھانہ شاہ لطیف ارشد عوان کا کہنا ہے کہ ملزم کی ہلاکت دوران علاج ہوئی اور پولیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: حبیب اللہ
پڑھیں:
کچلاک: استاد کا طالب علم کو تھپڑ مارنا جان لیوا بن گیا، پرنسپل خنجر کے وار سے قتل
بلوچستان(نیوز ڈیسک)بلوچستان کے ضلع کچلاک میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں طالب علم کو تھپڑ مارنے پر غصے میں آئے ماموں نے اسکول کے پرنسپل کو خنجر کے وار کر کے قتل کر دیا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر کے آلہ قتل برآمد کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق واقعہ کچلاک کے علاقے کلی لنڈی میں پیش آیا، جہاں احمد علی شاہ کا دس سالہ بیٹا ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ دو روز قبل اسکول کے پرنسپل سکندر شمیم نے بچے کو مبینہ طور پر تھپڑ مارے تھے جس کے باعث بچہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا۔
واقعے کی اطلاع ملنے پر بچے کے ماموں عطاللہ عرف شمس اللہ کو غصہ آیا۔ وہ اسکول کے باہر پرنسپل کا انتظار کرتا رہا۔ جیسے ہی پرنسپل اسکول کے گیٹ کے قریب پہنچا، عطاللہ نے خنجر سے اس پر حملہ کر دیا۔ حملے کے دوران ملزم بار بار دہراتا رہا کہ میرے بھانجے کو کیوں مارا؟
حملے کے بعد ملزم موقع سے فرار ہو گیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس فوری طور پر پہنچی اور شدید زخمی پرنسپل کو اسپتال منتقل کیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مقتول پرنسپل کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ کئی سالوں سے کچلاک کے مختلف اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
مزید انکشاف ہوا ہے کہ 2 جولائی کو مفتی محمود میموریل اسپتال کی جانب سے پولیس، سوشل ویلفیئر اور ایک این جی او کو خط بھیجا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پرنسپل نے بچے پر تشدد کیا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔
تاہم طالب علم کے والد احمد علی شاہ نے مبینہ طور پر 10 ہزار روپے کے عوض پرنسپل سے صلح کر لی تھی۔
پولیس کے مطابق ایس ایچ او کچلاک نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم عطااللہ کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر کے سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر دیا ہے مزید تفتیش جاری ہے۔
پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات نمایاں، مشال یوسفزئی کا علیمہ خان کے بیٹے پر طنز