یوپی کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ثبوت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ڈھانچہ ہری ہر مندر کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا، تو مسلمانوں کو عدالتوں کے چکر میں پڑے بغیر اسے ہندوؤں کے حوالے کر دینا چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ اگر مذہبی کتابوں اور آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سنبھل میں کلکی کو وقف ایک ہری ہر مندر شاہی جامع مسجد کی تعمیر سے پہلے موجود تھا، تو مسلمانوں کو اس مغلیہ دور کی مسجد ہندوؤں کے حوالے کر دینی چاہیئے۔ معلوم ہو کہ یوگی آدتیہ ناتھ کمبھ میلہ میں میڈیا ہاؤس "آج تک" کے زیر اہتمام  منعقد ایک کانکلیو میں بول رہے تھے۔ یہاں انہوں نے گزشتہ پانچ صدیوں سے موجود سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے تناظر میں یہ بھی کہا کہ  کسی کو، کسی بھی متنازعہ ڈھانچے، کو مسجد نہیں کہنا چاہیئے۔ غور طلب ہے کہ یوگی کے یہ تبصرے دسمبر 2024ء کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے پس منظر میں آئے ہیں، جس میں ملک کی عدالتوں کو دوسرے مذہبی مقامات پر دعویٰ کرنے والے کسی بھی نئے مقدمے کو درج نہیں کرنے کی  ہدایت دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ جو عبادت گاہوں کے قانون 1991 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے، نے کہا کہ جب تک یہ معاملہ زیر التوا ہے، نہ تو نئے مقدمات درج کیے جائیں گے اور نہ ہی زیر التوا مقدمات میں عبوری یا حتمی احکامات جاری کئے جائیں گے۔ یہ حکم سنبھل پر بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں ہندو کارکنوں نے شاہی جامع مسجد میں پوجا کے مذہبی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس مقام پر کبھی ہری ہر مندر موجود تھا۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ کسی بھی متنازعہ ڈھانچے کو مسجد نہیں کہا جانا چاہیئے، جس دن ہم اسے مسجد کہنا چھوڑ دیں گے لوگ وہاں جانا بھی چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی طرح سے اگر کسی کے عقیدے کو مجروح کرکے مسجد جیسا ڈھانچہ تعمیر کیا جائے تو یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جگہوں پر کسی قسم کی عبادت بھگوان کو بھی قبول نہیں۔

اترپردیش کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ "نئے ہندوستان" کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے، جو اپنی وراثت پر فخر محسوس کر سکے، وہ ملک بھر میں ہندو کارکنوں کے قدیم مساجد پر قبضہ پانے کے لئے مقدمہ دائر کرنے کے رجحان کا دفاع کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ آدتیہ ناتھ نے کہا کہ اگر ہم اپنے وراثت کی بحالی کی بات کر رہے ہیں تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ سنبھل مسجد کا حوالہ دیتے ہوئے آدتیہ یوگی ناتھ نے تجویز پیش کی کہ اگر ثبوت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ڈھانچہ ہری ہر مندر کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا، تو مسلمانوں کو عدالتوں کے چکر میں پڑے بغیر اسے ہندوؤں کے حوالے کر دینا چاہیئے۔ قابل ذکر ہے کہ سنبھل سول جج سینئر ڈیویژن نے 19 نومبر کو کچھ ہندو کارکنوں کی درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے جلدبازی میں مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ ان کارکنوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں تعمیر ہونے والا یہ اسلامی مذہبی مقام اصل میں بھگوان وشنو کے کلکی اوتار کے لئے وقف ایک بڑا ہندو مندر تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ہندوؤں کے حوالے کر مسلمانوں کو نے کہا کہ کسی بھی ناتھ نے کہ اگر

پڑھیں:

1984 سکھ نسل کشی: کمال ناتھ کی موجودگی چھپانے پر دہلی حکومت کی بازپرس کا مطالبہ

دہلی کے وزیر اور اکالی دل کے رہنما منجندر سنگھ سرسا نے سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمال ناتھ کی 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں مبینہ موجودگی سے متعلق پولیس رپورٹ عدالت میں پیش نہ کیے جانے پر دہلی ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدالت حکومت کو ہدایت دے کہ وہ 1 نومبر 1984 کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں ہونے والے سانحے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے، جس میں سابق اے سی پی گوتم کول نے اس وقت کے پولیس کمشنر کو کمال ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے بارے میں رپورٹ دی تھی۔

مزید پڑھیں: گولڈن ٹیمپل پر آپریشن بلیو اسٹار کو 41 برس مکمل، بھارتی سکھوں کے زخم آج بھی تازہ

درخواست گزار کے وکیل، سینئر ایڈووکیٹ ایچ ایس پھولکا نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ کمال ناتھ کی موقع پر موجودگی پولیس ریکارڈ اور متعدد اخبارات میں دستاویزی طور پر درج ہے، لیکن حکومت نے جنوری 2022 میں جمع کرائی گئی اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں ان شواہد کو شامل نہیں کیا۔

واضح رہے کہ دہلی ہائیکورٹ نے 27 جنوری 2022 کو حکومت کو معاملے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی تھی، جس پر مرکز نے حلف نامہ جمع کرایا، تاہم اس میں کمال ناتھ کے کردار پر کوئی بات شامل نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: ہیوسٹن میں سکھوں اور کشمیریوں کا بھارت کے خلاف مظاہرہ

درخواست کے مطابق یکم نومبر 1984 کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب کے احاطے میں دو سکھ، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو ایک مشتعل ہجوم نے زندہ جلا دیا، جس کی قیادت مبینہ طور پر کمال ناتھ کر رہے تھے۔

اس واقعے میں 5 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، تاہم کمال ناتھ کو نامزد نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں ٹرائل کورٹ نے یہ قرار دے کر تمام ملزمان کو بری کر دیا کہ وہ موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ عدالت نے اس درخواست کی سماعت کے لیے 18 نومبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

1984 کے سکھ مخالف فسادات سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمال ناتھ منجندر سنگھ سرسا

متعلقہ مضامین

  • بار بار کی پابندیاں تاریخی حقائق نہیں بدل سکتیں ہیں، میرواعظ کشمیر
  • پاکستان میں بینک اکاؤنٹ کھولنا مزید آسان، جامع فریم ورک متعارف
  • بھارت میں جبری مذہبی تبدیلیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپ پر انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ
  • مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!
  • "ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
  • بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
  • کرم میں طالبان کی بڑھتی سرگرمیوں کے حوالے سے علامہ سید تجمل الحسینی کی خصوصی گفتگو
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • 1984 سکھ نسل کشی: کمال ناتھ کی موجودگی چھپانے پر دہلی حکومت کی بازپرس کا مطالبہ