Nai Baat:
2025-11-03@14:56:45 GMT

عدالتی فیصلہ کے مثبت اثرات

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

عدالتی فیصلہ کے مثبت اثرات

اگر یہ کہا جائے کہ ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت سے چھٹی ہو جانے کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا برا وقت ہی چل رہا ہے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ ابتدا میں تو ان کا خیال تھا کہ استعفوں، دھونس، دھمکیوں اور وفاق پر یلغار جیسی کاروائیوں کے نتیجہ میں یہ اپنے ٹارگٹ حاصل کر لیںگے لیکن اس میں مکمل طور پر ناکامی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت بھاری فیسوں کے عوض انگیج کئے گئے بین الاقوامی لابسٹس اور ان کے اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ نے بھی اپنے جھوٹے سچے پراپیگنڈہ کا سلسلہ تو جاری رکھا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔اس کے بعد سول نافرمانی کی کال بھی حکومت اور ریاست کو پریشر میں نہ لا سکی۔
ان کے آخری دو حربوں میں پہلا یہ تاثر دینا تھا کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کے بانی چیئرمین کے ساتھ خصوصی لگائو رکھتے ہیں اور جلد ہی امریکہ سے آنے والے فون کے نتیجہ میں ان کے لیے جیل کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور بانی چیئرمین صاحب آزاد فضاوں میں اپنی کاروائیاں کرتے پھریں گے۔لیکن جوں جوں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے اس تاثر کے غبارے سے ہو ا بھی نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔

یہاں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کی بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات طے پا گئے ہیں ۔ ابھی اس سلسلہ میں منائی جانے والی خوشیاں جاری ہی تھیں کہ عدالت کی جانب سے ایک سو نوے ملین پونڈ کی ہیرا پھیری کے کیس کا فیصلہ آ گیا اور بانی چیئرمین کے ساتھ ساتھ ان کی بیگم کو قید اور جرمانہ کی سزا سنا دی گئی۔

اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہر قسم کے حیلے بہانے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے اور ان کی ناکامی کے بعد یقینا عمران خان خود کو اپنے سیاسی کیریئر کے ایک نازک موڑ پر پا رہے ہوں گے۔ اس عدالتی فیصلے نے، جو اہم قانونی اور سیاسی نتائج کا حامل ہے، عمران خان کے پاس تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے پر جانے کے لیے محدود راستے چھوڑ دیے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ ان الزامات کا نتیجہ ہے جو عمران خان کے دورِ اقتدار کے بارے میں طویل عرصے سے تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ الزامات سیاسی طور پر محرک ہیں، لیکن مخالفوں کا کہنا ہے کہ یہ کرپشن کی بنیاد پر کی جانے والی حکمرانی کو اجاگر کرتے ہیں۔

جج ناصر جاوید رانا صاحب کی جانب سے دیے جانے والے فیصلہ کے نتیجہ میں نہ صرف عمران خان کو چودہ سال بامشقت قید کاٹنا ہو گی بلکہ وہ ایک مخصوص مدت کے لیے عوامی عہدہ رکھنے سے سے بھی قاصر ر ہے گا۔ امکان ہے کہ مسٹر عمران خان کی قانونی ٹیم جلد ہی ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرے گی، جس میں یا تو فیصلے کو واپس لینے یا معطل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم، خاص طور پر پاکستان کے عدالتی عمل کی پیچیدہ اور مبہم نوعیت کے پیش نظر، ایسے اقدام کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

بلاشبہ عدالت کے فیصلے نے حکومت اور عمران خان کے دیگر سیاسی حریفوں کو کافی حوصلہ دیا ہے، جن سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان کی کمزور ہوتی ہوئی صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔ دریں اثنا، ان کی پارٹی کو اندرونی ہم آہنگی برقرار رکھنے اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے دوہرے چیلنج کا بھی سامنا رہے گا۔
پی ٹی آئی اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں اس کے کئی رہنما اپنے سیاسی مستقبل کی فکر میں یا کسی نہ کسی وجہ سے خود کو عمران خان سے دور کر چکے ہیں یا ایسا کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ویسے تو اس قسم کے حالات میں شائد کسی’ غیبی ‘ مدد کے بغیر خود عمران خان کے لیے بھی پی ٹی آئی کو مستحکم اور یکجا رکھنا خاصہ مشکل ہوتا لیکن پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے تو یہ کام بالکل ہی ناممکن نظر آتا ہے۔اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کے آئندہ عام انتخابات تک پی ٹی آئی دیمک زدہ بیساکھیوں پر کھڑی نظر آ رہی ہو گی۔

اب تک تو عمران خان اسی قسم کا تاثر دیتے رہے ہیں کہ ان کی سیاست ملک میں ہونے والی سیاسی انجینئرنگ اور ماورائے عدالت ہونے والی کارروائیوں سے متاثر ہے۔ ابتدائی طور پر تو ان کا یہ بیانیہ عوام بالخصوص نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کے ساتھ گونجتا رہتا ہے، جو انہیں سیاسی اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھتے تھے۔ تاہم، کرپشن کے الزامات ثابت ہو جانے اور مرکزی دھارے کی سیاست تک رسائی یا الیکشن لڑنے کی اہلیت کے بغیر اس رفتار کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو عمران خان کی جانب سے سعودی عرب، خلیجی ممالک اور چین جیسے ممالک کے ساتھ برے تعلقات کی وجہ سے بھی موجودہ منظر نامے میں، اس کے بین الاقوامی حمایت سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور اس وجہ سے وہ عالمی سطح پر تیزی سے الگ تھلگ بھی ہوتا جا رہا ہے، تو دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے تیزی سے جاری عوامی خدمت اور ملکی ترقی کے سلسلہ نے بھی پی ٹی آئی کی صفوں میں پریشانی پیدا کی ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے دی جانے والی سول نافرمانی کی کال کی بدترین ناکامی اور اس کے بانی چیئرمین اور اس کی اہلیہ کو عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کے بعد پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں خاطر خواہ اضافہ نے اس تاثر کو بھی زائل کرنے میں خاطر خواہ کردار ادا کیا ہے ہے کہ اگر ہلڑ بازی، تخریب کاری اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونے کے جرم میں بانی چیئرمین، دیگر راہنماوں اور کارکنوں کے خلاف عدالتی فیصلے آئیں گے تو ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات نمودار ہوں گے۔ غرض اس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سیاست، اقتصادیات، حکومت، انتظامیہ یا اسٹیبلشمنٹ کسی کو بھی متاثر کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ اگر اب بھی اس کی قیادت نے نوشتہ دیوار نہ پڑھا اور اپنی منفی سیاست کی روش ترک نہ کہ تو شائد پھر وہ دن دور نہیں جب پی ٹی آئی کا حال ایم کیو ایم جیسا اور عمران خان کا حال الطاف بھائی جیسا ہو جائے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بانی چیئرمین عمران خان کے کی جانب سے پی ٹی ا ئی جانے والی کے ساتھ رہی ہے کے لیے کے بعد اور اس

پڑھیں:

پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-26
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) پی ٹی آئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہوگئی‘ حکومتی و سیاسی قیادت سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی پرانی قیادت ’ ریلیز عمران خان‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہے، تحریک میں فواد چودھری، عمران اسماعیل، علی زیدی، محمود مولوی، سبطین خان اور دیگر رہنما موجود ہوں گے۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو میڈیکل چیک اپ کے لیے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) اسپتال لاہور لایا گیا، جہاں پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں فواد چودھری، مولوی محمود اور عمران اسماعیل نے اُن سے ملاقات کی۔ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے اہم فیصلے کیے، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقات کا فیصلہ کیا۔ اِسی طرح ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کا فیصلہ کیا گیا، عمران خان سے ملاقات بھی کی جائے گی، پی ٹی آئی کی سابق قیادت شاہ محمود قریشی کی رہائی کے لیے بھی سرگرم ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ قیادت نے شاہ محمود قریشی کو بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے اور سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، شاہ محمود قریشی کو تمام تر معاملات کو حل اور درست کرنے کے کردار ادا کرنے پر گفتگو ہوئی۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت عمران خان کو باہر نہیں نکال سکتی‘ سابق سینیٹر اعجاز چودھری، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملاقات کی گئی‘ ملاقات کے دوران موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ فواد چودھری کی سربراہی میں 3 رکنی وفد مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات کرے گا۔ فواد چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی سے شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور دیگر رہنماوں سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت نے سیاسی قیدیوں کو باہر لانے کی کوشش کی تائید کی ہے۔ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہٰذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا‘ اس وقت ہماری کوشش ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جاسکے، جس میں کم از کم بات چیت کا راستہ کھولا جا سکے، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور باقی دوستوں کے سامنے دوران ملاقات اپنا یہی نقطہ نظر رکھا اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ بھی اسی نقطہ نظرکے حامی ہیں۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے اس کے لیے اقدامات ہوں گے، سیاسی ماحول کیسے بہتر ہوگا، وہ ایسے ہی بہتر ہو سکتا ہے کہ سیاسی قیدیوں کو ریلیف ملے، شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں بغیر کسی وجہ کے نہیں ہو رہیں، اعجاز چودھری، یاسمین راشد، عمر چیمہ، محمود رشید، سیاسی ورکرز اور خواتین کا حق ہے کہ انہیں ضمانت ملے۔پی ٹی آئی کے سابق رہنما کا آخر میں کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے اہم وزرا سے بات ہوئی ، وہ بھی مفاہمت کے حامی ہیں‘، ہم نے جو کوشش شروع کی ہے اگلے دو تین ہفتوں میں نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے، یہ سارے معاملات ہوں گے تو سیاسی فضا بہتر ہوگی، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنانا ہمارا بنیادی کام ہے، فوری طور پر عمران اسمٰعیل، محمود مولوی اور میں باہر نکلے ہیں، آئندہ ملاقاتوں میں آپ کو پی ٹی آئی کی مزید سینئر لیڈر شپ نظر آئی گی اور یہ ماحول مزید بہتر ہو گا۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • جعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی
  • لاہور، فیصل آباد کے ہسپتالوں میں سکھ یاتریوں کیلئے خصوصی وارڈز قائم کرنے کا فیصلہ
  • عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
  • عمران خان کی رہائی کے لیے ایک اور کوشش ،سابق رہنماؤں نے اہم فیصلہ کرلیا ۔
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
  • ای چالان سسٹم کے مثبت اثرات، شہریوں میں قانون کی پاسداری کا رجحان بڑھ گیا
  • پی ٹی آئی میں حتمی فیصلہ عمران خان کا، چھوڑ کر جانے والے غیر متعلقہ ہیں: شیخ وقاص اکرم
  • کے الیکٹرک میں اعلی سطح پر اکھاڑ پچھاڑ، مونس علوی کو عہدے سے ہٹائے جانے کا امکان
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ