Daily Ausaf:
2025-06-09@15:15:49 GMT

سیاسی اور عدالتی معاملات میں مذہب کا سہارا

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف نے قانونی پہلوئوں کے بجائے مذہبی جذبات کو چھو کر مظلومیت کا بیانیہ بنانے پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔ یہ بات پہلے بھی زیر تبصرہ رہی کہ سابق وزیر اعظم کی دفاعی ٹیم قابل ذکر کارکردگی پیش نہ کر سکی۔ استغاثہ کے گواہوں پر طویل اور جامع جرح کے باوجود مضبوط شواہد کی وجہ سے استغاثہ کا موقف تسلیم کیا گیا۔ سادہ لفظوں میں دفاعی ٹیم استغاثہ کے موقف کو غلط ثابت نہ کر سکی۔ یہ پہلو تحریک انصاف کے لئے حوصلہ شکن ہے کہ عمران خان بدعنوانی کے مرتکب قرار دیئے گئے ہیں۔ انہیں اختیارات کے غلط استعمال سے مالی منفعت حاصل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 14 سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔ سابق خاتون اول کو جرم میں معاونت اور حوصلہ افزائی کرنے پر سزا سنائی گئی ہے ۔ چیریٹی ڈیڈاور مشترکہ بینک اکائونٹ پر ان کے دستخط نے ان کی شراکت جرم ثابت کر دی۔ نیب آرڈیننس کے سیکشن 10a کے مطابق مشکوک ٹرسٹ کی جائیداد وفاقی حکومت ضبط کر سکتی ہے۔ چنانچہ القادر ٹرسٹ کو حکومتی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
حکومتی ترجمانوں کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا میگا کرپشن کیس ہے ۔ دفاعی وکلا نے سیاسی بیانیہ بنا کر کیس کو آگے بڑھایا اور قانونی شواہد پیش کرنے سے گریز کیا ۔ وکیل صفائی نہ تو بے گناہی کے ثبوت پیش کرسکے اور نہ ہی پروسیکیوشن کی طرف سے پیش کردہ ثبوتوں کا توڑ کر سکے ۔ پہلے مرحلے میں مقدمہ ہارنے کے بعد اب مذہب کارڈ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس گھنائونے جرم کو مذہب کے پردے سے ڈھانپ دیا جائے۔ حکومتی موقف ہے کہ یہ کوئی ایدھی یا چھیپا ٹرسٹ کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ٹرسٹ رشو ت کی رقم کو جائز ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اب جرم کی سنگینی کم کرنے کے لئے سیرت کے حوالے دئیے جا رہے ہیں۔ کرپشن اور دنیا داری کے سیاسی معاملات کو سیرت جیسے مقدس موضوع کے ساتھ جوڑنا قابل مذمت فعل ہے ۔ سزا یافتہ مجرمان کو اپیل کا حق حاصل ہے ۔ بہتر ہوگا کہ مقدمہ قانونی بنیادوں پر لڑا جائے۔ یہ ثابت کیا جائے کہ این سی اے نے جو پیسہ حکومت پاکستان کو دیا تھا وہ قانونی تقاضوں کے مطابق خزانے میں جمع کیا گیا۔ بند لفافے کی کابینہ سے منظوری کا معمہ عدالت کو سمجھانا ہو گا۔ ٹرسٹ کی مالی شفافیت بھی ثابت کرنا ہوگی۔ معروف پراپرٹی ٹائیکون سے بیش قیمت تحائف کی وصولی کے معاملات اور وسیع اراضی کی ٹرسٹ کے نام منتقلی نے اس مقدمے میں سابق وزیراعظم اور سابق خاتون اول کے لیے بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں ۔ تحریک انصاف کی جانب سے ان کے دفاع میں قانونی نکات کے بجائے مذہبی حوالے اور مقدس ہستیوں کے ناموں کا استعمال عدالت میں کسی کام نہیں آسکے گا۔ تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلے کو غلط ثابت کرنے کے لیے مذہبی کارڈ کے بے دریغ استعمال کی مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی مذمت کی گئی ہے۔ ملک کے معروف علماء اور دینی اداروں نے اس طرز عمل کے خلاف شرعی احکامات بیان کر کے یہ مشورہ دیا ہے کہ سیاسی معاملات میں مذہبی جذبات کا استحصال مناسب نہیں۔
اگرچہ حکومتی ترجمان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کو احتساب عدالت سے سزا ملنے کے فیصلے پر بے پناہ اظہار مسرت کر رہے ہیں لیکن وہ یہ پہلو بھی نظر انداز نہ کریں کہ چند سال قبل ان کی جماعت اور قیادت بھی ایسے ہی مقدمات کا شکار ہو کر عدالتوں کے چکر کاٹا کرتی تھی۔ پاکستان کے عجیب و غریب سیاسی ماحول میں سیاسی قیادت کا مقدمات میں سزا پانا اور پھر کچھ عرصے بعد قانونی جنگ لڑ کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا ایک معمول سا بن گیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے عہد حکومت میں ان اقدامات سے گریز کریں جن سے آنے والے دنوں میں ان کی دیانت اور ساکھ پر سوالات اٹھیں۔ دنیابھر میں ہمارے حکمرانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کرپشن کے مقدمات کی گونج دنیا بھر کے میڈیا میں سنائی دے رہی ہے۔ لندن میں پاکستان سے غیر قانونی طریقوں سے بھیجی گئی رقوم واپس بھیجی جا رہی ہیں اور پھر حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ جن صاحب نے بند لفافے میں 190 ملین پائونڈ رقم کی پاکستان ترسیل کا معاہدہ کیا وہ خود اس وقت لندن میں روپوش ہیں۔ اس کے علاوہ بھی القادر ٹرسٹ مقدمے سے جڑے بہت سے کردار عدالتی حکم کے تحت مفرور قرار دیے جا چکے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں اختیار کے غلط استعمال اور بدعنوانی کے رجحان کو ہر قیمت پر ختم کیا جائے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ کئی اعتبار سے پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوگا۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی ان پہلوئوں پر غور کریں کہ جن سیاسی رفقا کے مشوروں کی وجہ سے آج وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں آنے والے دنوں میں وہ میں ایسے نادان اور بدعنوان مشیروں سے اپنا دامن کس طرح بچائیں گے؟ یہ امر بھی لائق مذمت ہے کہ سیاسی معاملات اور بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کے لیے مذہبی حوالے استعمال کیے جارہے ہیں۔ بہتر ہے کہ سیاسی اور دنیاوی معاملات میں مذہب اور مقدس ہستیوں کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے قانونی محاذ پر صف بندی کی جائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تحریک انصاف ہے کہ سیاسی کرنے کے کیا جا کے لیے

پڑھیں:

لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی

LOS ANGELES:

لاس اینجلس میں غیر قانونی تارکین کے چھاپوں کے خلاف جاری احتجاج کے دوران صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر تعینات نیشنل گارڈ کے دستے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔

گزشتہ روز ایک وفاقی حراستی مرکز کے باہر سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد صدر ٹرمپ نے بہت سخت قانون و انصاف نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دیگر شہروں میں بھی فوج تعینات کرنے کا عندیہ دیا۔

امریکی فوج کے مطابق 79ویں انفنٹری بریگیڈ کامبیٹ ٹیم کے 300 فوجی اہلکار گریٹر لاس اینجلس کے تین مختلف مقامات پر تعینات کیے گئے ہیں۔ ان کا مشن وفاقی املاک اور عملے کی حفاظت فراہم کرنا ہے۔

ان فوجی اہلکاروں کو مکمل جنگی لباس اور اسلحے کے ساتھ شہر کے مرکزی وفاقی حراستی مرکز پر تعینات کیا گیا، جہاں وہ محکمہ داخلہ (ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی) کے اہلکاروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے آنسو گیس اور پیپر اسپرے کا استعمال کیا، جس سے صحافیوں سمیت کئی افراد متاثر ہوئے۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب ایک سرکاری گاڑیوں کا قافلہ حراستی مرکز میں داخل ہو رہا تھا۔

صدر ٹرمپ نے مظاہروں میں مبینہ پرتشدد عناصر کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے پرتشدد لوگ ہیں ہم انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے لاس اینجلس میں احتجاج کے دوران نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا وہ انسریکشن ایکٹ (Insurrection Act) نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو فوج کو داخلی طور پر پولیس فورس کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے تو صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ہم ہر جگہ فوج تعینات کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہ سب کچھ اپنے ملک کے ساتھ نہیں ہونے دیں گے۔

دوسری جانب کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے اس اقدام کو جان بوجھ کر اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریاستی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ جب تک ٹرمپ نے مداخلت نہیں کی تھی، ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، یہ ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے، حکم واپس لیا جائے اور کیلیفورنیا کا کنٹرول ریاست کو لوٹایا جائے۔

متعدد ڈیموکریٹ گورنرز نے ایک مشترکہ بیان میں گورنر نیوزوم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کا استعمال اقتدار کا خطرناک غلط استعمال ہے۔

واضح رہے کہ نیشنل گارڈ امریکا کی ایک ریزرو فوجی فورس ہے، جو عموماً قدرتی آفات یا شدید ہنگامی حالات میں مقامی حکام کی درخواست پر تعینات کی جاتی ہے۔

اس بار یہ تعیناتی ریاستی منظوری کے بغیر کی گئی ہے، جو ماہرین کے مطابق 1960ء کی شہری حقوق کی تحریک کے بعد پہلا واقعہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ انتظامیہ نے طاقت کا غلط استعمال کر کے تشدد کو ہوا دی، امیگریشن ایڈوکیسی گروپ
  • گورنر کیلیفورنیا نے صدر ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا
  • افسوس بھارت نے سیاست کو مذہب سے جوڑ دیا: رمیش سنگھ اروڑا
  • بلی کے ذریعے جیل میں چرس اسمگل کی کوشش ناکام
  • لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا کشمیری قیادت کی مسلسل غیر قانونی نظربندی پر اظہار تشویش
  • پاکستان امن کا خواہاں، بھارت سے تمام معاملات پر بات چیت کیلئے تیار ہیں، بلاول بھٹو
  • جوانوں کی قربانیاں اور ثابت قدمی وطن کے تحفظ کی ضمانت اور پاکستان کی اصل طاقت ہے، وزیر داخلہ
  • جسٹس منصور علی شاہ نے بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان ذمہ داریاں سنبھال لیں
  • چین اور یورپی یونین کے درمیان  تین ” اہم معاملات ” میں پیش رفت