19 بچوں کی ماں نے پی ایچ ڈی کرکے سب کو حیران کردیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
سعودی عرب(نیوز ڈسک)کہتے ہیں کہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ میں سیکھنے کی لگن ہو تو عمر اور تمام مصیبتوں کو انسان بہ آسانی عبور کرلیتا ہے۔ایسا ہی کچھ سععودی عرب کی ایک خاتون نے کیا۔ جو کہ 19بچوں کی ماں بھی ہے اور اس کے بعد انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ خاتون کا حمدہ الرویلی ہے۔حمدہ الرویلی 19 بچوں کی ماں ہونے کے باوجود اپنی تعلیم کا خواب پورا کرنے میں کامیاب رہیں۔ حمدہ نے نہ صرف اپنے بچوں کی بہترین پرورش کی بلکہ اپنی لگن اور محنت سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی، جو واقعی ایک متاثر کن کارنامہ ہے۔
زندگی کا نظام اور منصوبہ بندی کیسے کرتی ہیں؟
حمدہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کو ایک خاص نظام کے تحت منظم کیا۔ دن کے وقت وہ اپنے بچوں اور کام پر توجہ دیتی ہیں، جبکہ رات کو اپنی پڑھائی اور ای کامرس کے کاروبار کے لیے وقت نکالتی ہیں۔ حمدہ کا کہنا ہے، ’مجھے بے ترتیبی پسند نہیں، اس لیے میں ہر دن کی منصوبہ بندی بہت احتیاط سے کرتی ہوں۔‘
تعلیم اور کیریئر کا سفر کیسے طے کیا؟
43 سال کی عمر سے پہلے حمدہ نے بیچلر، ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں مکمل کیں۔
گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق حمدہ الرویلی نے سعودی ٹی وی چینل الاخباریہ کو انکشاف کیا کہ وہ ذہنی صحت کے شعبے میں ایک اہم عہدے پر کام کرتی ہیں اور ساتھ ہی ای کامرس کا کاروبار بھی سنبھالتی ہیں۔ اپنے تعلیمی سفر کے دوران انہیں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔حمدہ کے لیے ان کے اساتذہ اور فوجی افسران انکی انسپیریشن کا ذریعہ تھے۔ ان کے بقول، ’میرا رول ماڈل وہ استاد ہے جو طلبہ سے بھری کلاس کو منظم کرتا ہے، اور وہ فوجی افسر ہے جو بڑی تعداد میں فوجیوں کی نگرانی کرتا ہے۔‘
بچوں کی پرورش اور تعلیم کے معاملات
19 بچوں کی ماں ہونا ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن حمدہ نے اپنے بچوں کی پرورش کو بھی مثالی بنایا۔ ان کے تمام بچے اپنی تعلیم میں بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں، اور کچھ نے تو 100 فیصد نمبر بھی حاصل کیے ہیں۔ حمدہ نے کہا، ’میرے لیے ایک بچے کی پرورش 10 بچوں کی پرورش جیسی ہے، لیکن میں ہر بچے کی ضروریات کا خیال رکھتی ہوں اور ان کے شوق کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔‘
کامیابی کا راز
حمدہ کا ماننا ہے کہ یہ کامیابی ان کی محنت، منصوبہ بندی اور خاندان کے تعاون کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’تعلیم کا خواب پورا کرنا آسان نہیں تھا، لیکن میں نے اسے کبھی ترک نہیں کیا۔‘حمدہ الرویلی کی کامیابی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محنت، صبر اور منصوبہ بندی سے کچھ بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ چاہے ذمہ داریاں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، اگر آپ کے پاس جذبہ اور لگن ہو تو کامیابی آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔
ملتان ٹیسٹ: پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو 127 رنز سے شکست دے دی
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حمدہ الرویلی بچوں کی ماں انہوں نے کی پرورش
پڑھیں:
’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
دنیا میں عورت کو قدرت نے جس انداز میں تخلیق کیا ہے، وہ محبت، قربانی، احساس اور استقامت کی ایک علامت ہے، مگر جب یہی عورت زندگی کے کسی موڑ پر اکیلے اپنی اولاد کی پرورش کا بیڑا اٹھاتی ہے، تو وہ صرف ایک ماں نہیں رہتی، بلکہ ایک عزم و حوصلے کی داستان بن جاتی ہے۔
تنہا ماں یا ’سنگل مدر‘ ہونا بہ ظاہر ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے، لیکن اگر غور کیا جائے، تو ان مشکلات کے اندر ہی بہت سی برکتیں اور آسانیاں بھی پوشیدہ ہیں۔ وہ خواتین جو حالات، قسمت یا فیصلوں کے باعث تنہا اپنی زندگی اور بچوں کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں، ان کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آزمائش کے ساتھ ساتھ رب کی رحمت بھی ہمیشہ شاملِ حال رہتی ہے۔
سنگل مدر کا سب سے پہلا مسئلہ معاشرتی اور سماجی دباؤ ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کا تنہا زندگی گزارنا یا بچوں کی پرورش کرنا کسی ’اچنبھے‘ سے کم نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کو کچھ عجیب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں، چے مگوئیاں کرتے ہیں اور اکثر ہمدردی کے لبادے میں دل دُکھانے والی باتیں بھی کر جاتے ہیں۔
تنہا ماں یا ’ سنگل مدر‘ کو اکثر ’ادھوری عورت‘ کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں، حالاں کہ وہ ایک مکمل کردار ہیں، جو دو افراد کا بوجھ تنہا اٹھا رہی ہوتی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ معاشی تنگی ہے۔ اکثر تنہا ماں کو گھر چلانے کے لیے ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ صبح سے شام تک کام، پھر بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم، اور گھریلو ذمہ داریاں، یہ سب کچھ ایک ساتھ سنبھالنا کسی مرد کے لیے بھی آسان نہیں، تو ایک عورت کے لیے یہ جدوجہد دُگنا ہو جاتی ہے۔
اسی طرح ایک اکیلی ماں کو جذباتی دباؤ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ جب وہ اکیلے زندگی کے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کرتی ہے، تو اسے اپنی کمزوریوں کو چھپانا، غم کو مسکراہٹ میں بدلنا، اور دکھوں کو قوت میں تبدیل کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے سامنے کبھی کمزور نہیں پڑتی، کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آنسو ان کے حوصلے توڑ سکتے ہیں۔
اشفاق احمد صاحب نے ایک بار کہا تھا: ’’کوشش کرو جس چیز کے لیے تم خود ترس رہے ہو، کوئی دوسرا آپ کی وجہ سے نہ ترسے، پھر چاہے وہ رشتے ہوں، خوشیاں ہوں یا سکون۔‘‘ یہ قول ’تنہا ماں‘ کی زندگی پر خوب صورتی سے صادق آتا ہے۔ ایسی مائیں، جو اپنی زندگی میں محبت، توجہ یا سکون سے محروم ہو جاتی ہیں، وہ اپنی اولاد کے لیے یہ سب چیزیں بھرپور دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس کمی کا احساس نہیں ہونے دیتیں، جس کا سامنا وہ خود کرتی ہیں۔ ان کی یہی قربانی ان کی روحانی طاقت بن جاتی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔‘‘ یہ حدیث ’تنہا ماں‘ کے لیے ایک عملی راہ نمائی دیتی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کا اصل امتحان باہر کی دنیا نہیں، بلکہ اپنے گھر میں ہے، اپنے بچوں کے ساتھ صبر، محبت، اور حسنِ سلوک سے پیش آنا۔
اگرچہ ’تنہا مائیں‘ بے شمار مشکلات سے گزرتی ہیں، لیکن ان کے حوصلے اور کردار میں ایسی برکتیں ہیں، جو عام حالات میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اکیلی ماں ہر دن اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ وہ اپنے گھر، مالیات اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے خود مختار ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس خودمختاری کو اپنی طاقت بھی بنا سکتی ہے۔ اس کے اور اس کے بچوں کے درمیان ایک خاص تعلق قائم ہوتا ہے۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ ان کی ماں نے مشکلات میں ہمت نہیں ہاری، تو وہ بھی زندگی میں عزم، صبر اور حوصلے کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ مشکلات انسان کو تراشتی ہیں۔ ’تنہا ماں‘ ان مشکلات سے گزر کر ایک مضبوط، پُراعتماد اور دانا شخصیت میں ڈھل جاتی ہے۔
جب انسان اکیلا ہوتا ہے، تو اسے اپنی اصل طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ ’تنہا ماں‘ کا اللہ سے تعلق بہت گہرا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہر کام یابی کو اپنے رب کی مدد سمجھتی ہیں اور ہر مشکل میں اس کے سہارے کو محسوس کرتی ہیں۔ ان کے اندر پیدا ہونے والی یہ روحانی قربت انہیں ایک نئی روشنی عطا کرتی ہے۔ وہ سمجھ جاتی ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں اس وقت تک شکست نہیں دے سکتی، جب تک اللہ ان کے ساتھ ہے۔ ان کی دعائیں، ان کے سجدے اور ان کا صبر ان کے بچوں کے لیے ڈھال بن جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ابھی تک ’سنگل مدرز‘ کے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی خواتین ہمدردی نہیں، بلکہ احترام کی مستحق ہیں۔ انھیں ترس کی نگاہ سے دیکھنے کے بہ جائے ان کے عزم کو سراہنا چاہیے۔ اسکولوں، دفاتر، اور سرکاری اداروں میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جانی چاہیئں، تاکہ وہ بہتر طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ میڈیا اور نصابِ تعلیم میں بھی ’تنہا ماں‘ کو منفی انداز میں پیش نہیں کرنا چاہیے۔ بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ماں ہر صورت میں اہم اور بلند مرتبہ ہوتی ہے۔
’تنہا ماں‘ کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ خود کو کمزور یا تنہا نہ سمجھیں۔ ان کے اندر وہ قوت موجود ہے، جو پہاڑوں کو ہلا سکتی ہے۔ وہ صرف اپنی نہیں، بلکہ اپنی نسلوں کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ زندگی کی ہر آزمائش کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت چھپی ہوتی ہے۔ شاید اللہ انھیں اس لیے مضبوط بنانا چاہتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشنی کا چراغ بنیں۔
سنگل مدر کی زندگی بلاشبہ ایک جہدِ مسلسل ہے، مگر اسی جدوجہد میں کام یابی، محبت اور قربانی کی حقیقی روح چُھپی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے ماں بھی ہے، باپ بھی، دوست بھی اور راہ نما بھی۔ ان کا تنہا ہونا یقیناً ایک المیہ اور ایک ناخوش گوار واقعے ہی کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے اس تلخ حقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ایسی خواتین کی قربانیوں کو مانا جانا چاہیے۔