پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کیا مستقبل ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
پاکستان میں ہر کچھ عرصے کے بعد ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے خبریں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل کرنسیوں میں لین دین اور کاروبار کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور چونکہ پاکستانی عوام کی بھی ایک بڑی تعداد بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیوں میں خاصی دلچسپی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خبریں وقتا فوقتا گردش کرتی رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:2025 میں کرپٹو کرنسی کی قدر و قیمت کہاں تک پہنچے گی؟
اب ایک بار پھر کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی شکل دینے کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مکمل فریم ورک بھی تیار کیا گیا ہے اور اگر یہ فریم ورک منظور ہو جاتا ہے۔ تو اس کے بعد اسٹیٹ بینک کی جانب سے پاکستان کی اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائی جائی گی۔
وی نیوز نے جب اسٹیٹ بینک سے رابطہ کیا تو اسٹیٹ بینک کے ترجمان خبیب عثمانی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایسا کوئی میسج ارسال نہیں کیا گیا۔ اگر اس قسم کی کوئی بھی چیز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے تو اس کا اسٹیٹ بینک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے کوئی پیش رفت کی گئی تو اسٹیٹ بینک کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے مطلع کر دیا جائے گا۔
ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی شکل نہ دینے کے اپنے پہلے موقف پر قائم ہے، اور تمام مالیاتی اداروں کو کرپٹو میں لین دین سے گریز کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ نے کرپٹوکرنسی لانچ کردی، نومنتخب صدر پر عہدہ کیش کرنیکا الزام
تاہم دوسری جانب پاکستانیوں کی کرپٹو کرنسیوں میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور ا س کا اندازہ دسمبر 2021 میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 2021 میں تقریباً 20 بلین ڈالر کی کرپٹو کرنسی کی قدر ریکارڈ کی، جو کہ ملک کے موجودہ وفاقی ذخائر سے زائد ہے۔
پاکستان 2020-21 کے دوران کرپٹو کرنسی اپنانے کے انڈیکس میں ہندوستان اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسیوں کا رجحان تیزی سے زور پکڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی کرپٹو کرنسی لانچ کر دی ہے، جس کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن تیزی سے کئی بلین ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کیا فیوچر ہے؟ اور کرپٹو کرنسی پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مفید ثابت ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے معاشی ماہر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ پوردی دنیا میں کرپٹو کرنسی کو تیزی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ ایک بلاک چین ٹیکنالوجی ہے،پاکستان کو نئی ایجادات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ کیونکہ دنیا کا معاشی نظام تبدیل ہو رہا ہے۔
ٹیکنالوجیز کو اپنانا ہوگایہ بھی پڑھیں:پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہتا ہے تو پاکستان کو اس طرح کی ٹیکنالوجیز کو اپنانا ہوگا۔
اسٹیٹ بینک جس ڈیجیٹل کرنسی کی بات کرتا ہے وہ تو ہم پہلے سے ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ایزی پیسہ، صدا پے، جیز کیش اور منی ٹرانسفر کی دیگرایپس۔
اسٹیٹ بینک اور حکومت دونوں سوئے ہوئے ہیںان کہنا تھا کہ جو اسٹیٹ بینک کی جانب سے حالیہ پالیسی پر بات کی گئی ہے۔ اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ بالکل فضول ہے۔ پاکستان میں اسٹیٹ بینک اور حکومت دونوں ہی سوئے ہوئے ہیں۔ اگر وقت پر کرپٹو کر ملک میں قانونی شکل نہ دی گئی تو پاکستان دنیا کہ مقابلے میں پیچھے رہ جائے گا۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ معیشت کے نفع اور نقصان بہت بعد میں آتے ہیں۔ سب سے پہلی بات ملک میں نئی ایجادات کو اپنایا جائے تاکہ پوری دنیا کے فنانشل سسٹم کے مطابق چلا جا سکے۔
معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر نے اس بارے میں وی نیوز کا بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اب تک کرپٹو کرنسی کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسٹیٹ بینک ابھی بھی اس کو ریویو کر رہا ہے۔ مگر اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا کہ اس کی پاکستان میں قانونی حثیت کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:حوالہ اور کرپٹو کرنسی کا ابھرتا ہوا گٹھ جوڑ
تقریباً ایک سال قبل جب آئی ایم ایف کا ٹیکنیکل مشن پاکستان آیا تو ان کی جانب سے بھی حکومت کو کہا گیا کہ کرپٹو کرنسی کو باقاعدہ کرنسی کا درجہ دیا جائے۔اور اس کو ٹیکس نیٹ میں بھی لایا جائے۔
مہتاب حیدر کے مطابق اسٹیٹ بینک کو مزید کرپٹو کرنسی کے حوالے سے چیزیں دیکھ بچار کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اور اس کی پروٹیکشن کے حوالے سے کوئی فریم ورک تیار کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہناتھا کہ اسٹیٹ بینک کو کرپٹو کرنسی کے حوالے سے اپنا واضح فیصلہ سنا دینا چاہیے۔ اس میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر اسٹیٹ بینک نے اجازت دینی ہےتو پاکستانی جو سرمایہ کاری کا سوچ رہے ہیں وہ وقت پر سرمایہ کاری کر سکیں اور اگر اجازت نہیں دینی تو وہ پاکستانی جن کی پہلے سے سرمایہ کاری ہے، وہ وقت پر اس کو نکال لیں، تاکہ پاکستانی مشکل وقت سے بچ جائیں۔ اور اگر اسٹیٹ بینک اجازت دیتا ہے تو یقیناً اس سے معیشت کو بھی مثبت اثر ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کو اس پر اپنا واضح فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کرپٹو کرنسی لین دین کے خلاف واضح پالیسی اپنائی جائے، ایف آئی اے
پاکستان میں کرپٹو کرنسیوں کے حوالے سے کیا آرا پائی جاتی ہیں؟معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ کرپٹو ایک نیا تصور ہے، اور اس کی ٹریڈنگ کی اجازت اسٹیٹ بینک کی جانب سے نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی کرنسی ہوتی ہے وہ کسی ملک کی ضمانت پر جاری ہوتی ہے۔ اگر کرپٹو کو قانونی شکل دے دی جائے تو کرپٹو کسی ریاست کی ذمہ داری پر جا رہی ہوگی۔ اگر کوئی بھی کرنسی بنا لی جائے تو اس کے پیچھے بہت سے سوالات ہوتے ہیں۔ اس کا ریگولیٹری فریم ورک کیا ہے؟ کس بنیاد پر جاری ہوئی ہے؟ اور کیسے جاری ہوئی ہے؟۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو کرپٹو کے حوالے سے بہت مبہم ہیں۔
راجہ کامران کے مطابق ڈیجیٹل کرنسی میں خریداری بھی آسان نہیں ہے۔ کرپٹو موبائل یا سسٹم پر ڈاؤن لوڈ کی جائے تو وہ ڈیوائس کی میموری بہت زیادہ لے لیتی ہے۔ دوسرا بجلی زیادہ کنزیوم کرتی ہے۔ بہت سی ایسی کرپٹو مائننگ کمپنیاں، جو کرپٹو جاری کرتی تھیں۔ چین کی جانب سے ان کو بین کر دیا گیا، کیونکہ وہ بہت بڑے پیمانے پر بجلی کو استعمال کر رہی تھیں۔ اور وہاں بجلی کرائسس پیدا ہو رہا تھا۔ اسی لیے پوری دنیا میں کرپٹو پر ذرا سختی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ کرپٹو مائننگ بہت زیادہ وقت اور بجلی لیتی ہے۔ اور دوسرے وجہ یہ ہے کہ کرپٹو کسی کرنسی کی صورت میں نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کا تعین بائی نانس اکاؤنٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ کرپٹو کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اے آئی اور کرپٹو کرنسی مائننگ ماحول کے لیے کس قدر تباہ کن ہیں؟
راجہ کامران کا کہنا تھا کہ کرپٹو کا اس کے علاوہ ایک شرعی معاملہ بھی ہے۔ کوئی بھی روپیہ یا کوئی بھی کرنسی کسی بھی چیز کے لین دین کا ایک ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر میرے پاس پرانا 100 کا نوٹ ہے میں بینک سے نیا نوٹ 100 کا لونگا تو اس پیسے کی قدر میں کوئی اونچ نیچ نہیں آئے گی۔ دونوں کی ویلیو برابر ہی رہے گی۔
اسلام میں کرنسی کی تجارت منع ہے۔ جسے روپے پر بیع کہتے ہیں۔ لیکن کرنسی سے تجارت کر سکتے ہیں۔ جیسے پیسے دے کر کچھ خرید لیا جائے۔ کرپٹو کرنسی کے طور پر استعمال نہیں ہو رہی۔بلکہ کرپٹو کی ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری یہ ذاتی رائے ہے کہ شرعی اعتبار سے بھی کرپٹو میں ابھی کچھ ابہام ہیں۔ لوگ کرپٹو میں خریدوفروخت کم بلکہ سٹے بازی کر رہے ہیں۔
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی لوگوں کے موبائل والٹ میں نہیں بلکہ بائنانس والٹ میں ہوتی ہے۔ جس پر ٹریڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ اگر کسی نے ایچ بی ایل میں اپنے پیسے رکھے ہوئے ہیں، وہ جب چاہے آن لائن پیمنٹ کر کے چیز خرید سکتا ہے۔ اور وہ پیسے پڑے پڑے کم یا زیادہ بھی نہیں ہو رہے۔ جب میں نے اپنی بینک ایپ کے ذریعے اپنی اصلی کرنسی کو ڈیجیٹل فارم میں تبدیل کر لیا ہے تو مجھے ڈیجیٹل کرنسی کی کیا ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پولیس اہلکاروں کی کرپٹو کرنسی میں بڑی ڈکیتی، معاملہ ہے کیا؟
واضح رہے کہ ٹرمپ کے میم کوائن کے حوالے سے بھی خدشات پائے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ’میم کوائن‘ میں اندرونی قدر کی کمی ہے اور یہ انتہائی غیر مستحکم سرمایہ کاری ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیٹ بینک خبیب عثمانی ڈونلڈ ٹرمپ راجہ کامران کرپٹو کرنسی مہتاب حیدر میم کوائن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک ڈونلڈ ٹرمپ راجہ کامران کرپٹو کرنسی مہتاب حیدر میم کوائن اسٹیٹ بینک کی جانب سے کرنسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کرنسی سرمایہ کاری راجہ کامران قانونی شکل کہ پاکستان کوئی بھی کرنسی کی کرنسی کو رہے ہیں نہیں ہے لین دین رہی ہے رہا ہے اگر اس جا رہی
پڑھیں:
سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا
رضوان طاہر مبین
ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!
ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔
اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟
یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔
اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘
اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟
’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔
اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔
بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟
اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:
آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟
کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟
آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔
یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!
کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘
بھارت کا سفارتی رافیل
ابنِ امین
ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔
اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔
اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔
اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔
تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔
یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔