اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جنوری 2025ء) حماس کے مطابق پیر کو رہا کیے گئے نوے فلسطینی قیدیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے فلسطینیوں میں مغربی کنارے اور یروشلم کی 69 خواتین اور 21 نوعمر لڑکے شامل ہیں۔ رہا کیے گئے افراد میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی رہنما خالدہ جرار بھی شامل ہیں۔
فائر بندی کے بعد حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے تین خواتین رہا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، آج رہا کیے گئے زیادہ تر افراد کو حال ہی میں حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا اور سزا بھی نہیں سنائی گئی تھی۔
فائر بندی کے پہلے مرحلے کے دوران، توقع ہے کہ اسرائیل تقریباً 1,900 فلسطینی قیدیوں اور نظربندوں کو رہا کرے گا، جب کہ حماس کے قریب 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کی توقع ہے۔
(جاری ہے)
حماس کا کہنا ہے کہ ہر اسرائیلی یرغمالی کی رہائی کے بدلے 30 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا جائے گا۔
رہا کیے گئے افراد میں خالدہ جرار شاملایسوسی ایٹڈ پریس سمیت متعدد ذرائع ابلاغ کے مطابق، فلسطینی سیاست دان خالدہ جرار ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں رہا کیا گیا ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں قید سرکردہ ترین فلسطینیوں میں کون کون شامل؟
جرار پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی ایک سرکردہ رہنما ہیں۔
اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین نے اس گروپ کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دیا ہے۔جرار پچھلی دہائی کے بیشتر عرصے سے جیل کے اندر اور باہر رہی ہیں، اس سے قبل انہیں اشتعال انگیزی جیسے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔ خالدہ جرار کے اعزہ و اقارب نے انہیں خوش آمدید کہا۔
'رہائی کا انتظار انتہائی مشکل تھا'رہائی پانے والے فلسطینیوں نے بتایا کہ رہائی کا انتظار انتہائی مشکل تھا۔
رہائی پانے والی پہلی فلسطینی قیدیوں میں سے ایک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ آزادی کی طرف ان کا سفر اتوار کی سہ پہر تین بجے شروع ہوا، جہاں انہیں جیل سے لے جا کر اسرائیل-غزہ بیریئر کے قریب منتقل کر دیا گیا۔
فلسطینی صحافی، بشریٰ الطویل، نے کہا کہ انہیں دوسرے قیدیوں سے معلوم ہوا تھا کہ انہیں رہائی مل جائے گی۔ بشریٰ الطویل کو مارچ 2024 میں قید کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، "وکلاء نے انہیں بتایا کہ (فائر بندی) ڈیل کا اعلان کر دیا گیا ہے اور یہ عمل درآمد کے مرحلے میں ہے۔" لیکن یہ "انتظار بہت مشکل تھا۔ مگر اللہ کا شکر ہے، ہمیں یقین تھا کہ کسی بھی لمحے ہمیں رہا کر دیا جائے گا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "وہ اپنے والد کے بارے میں فکر مند رہتی ہے، جو اب بھی اسرائیلی جیل میں قید ہیں۔
" حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں خبر ملی ہے کہ فائربندی کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر بعد میں ان کے والد کو بھی رہا کیا جائے گا۔ صحت کی ضروریات کو پورا کرنا ایک چیلنجنگ کام، ڈبلیو ایچ اوفائربندی کے معاہدے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی "بڑے پیمانے پر صحت کی ضروریات" کو پورا کرنا ایک "پیچیدہ اور چیلنجنگ کام" ہو گا۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا کہ "یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے عمل کا آغاز "ان لاکھوں لوگوں کے لیے بڑی امید افزاء ہے جن کی زندگیاں تنازعات کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ یہ وہ گھڑی ہے جس کا میں منتظر تھا اور جس کے لیے اپیلیں کی تھیں۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ "غزہ میں تباہی کی وسعت، آپریشنل پیچیدگی اور دیگر رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے، بڑے پیمانے پر صحت کی ضروریات کو پورا کرنا اور صحت کے نظام کی بحالی ایک پیچیدہ اور چیلنجنگ کام ہو گا۔
"دریں اثنا اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اتوار کو 630 سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی قیدیوں رہا کیے گئے خالدہ جرار کے مطابق انہوں نے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس آنے والے متعدد افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں حکام کی جانب سے تشدد، بدسلوکی اور ناجائز حراستوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور 'او ایچ سی ایچ آر' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپس آںے والے افغانوں میں خواتین، لڑکیوں، سابق حکومت اور اس کی فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں، ذرائع ابلاغ کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
Tweet URLاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ کسی مہاجر یا پناہ گزین کو ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ماضی کی بنا پر مظالم کا خدشہ ہو۔
(جاری ہے)
افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں محض صنفی بنیاد پر ہی ان کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔خفیہ زندگی، تشدد اور مظالمرپورٹ میں گزشتہ سال واپس آنے والے 49 لوگوں سے کی گئی بات چیت کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ان میں شامل سابق حکومت اور فوج کے اہلکار افغانستان میں انتقامی کارروائی کے خوف سے خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ طالبان حکام نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں ان کے خلاف لڑنے والوں کو عام معافی دی جائے گی۔
اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آںے کے بعد ملک چھوڑ دینے والی ٹیلی ویژن کی ایک سابق رپورٹر نے بتایا کہ ملک میں واپسی کے بعد انہیں اور دیگر خواتین کو نہ تو روزگار کے مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی انہیں تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی ہے۔ ان حالات میں وہ خود کو گھر میں نظربند محسوس کرتی ہیں۔
ایک سابق سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ 2023 میں افغانستان واپس آںے کے بعد انہیں دو راتوں تک ایک گھر میں بند کر کے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس دوران طالبان حکام نے انہیں ڈنڈوں اور تاروں سے مارا پیٹا، پانی میں غوطے دیے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر بناوٹی طور پر پھانسی دی۔ اس تشدد کے نتیجے میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ملک بدری سے گریز کا مطالبہپناہ گزینوں کو ایسے ملک میں واپس بھیجنا بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے جہاں انہیں مظالم، تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا، جبری گمشدگی یا دیگر ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ ہو۔
رپورٹ میں رکن ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم کسی افغان فرد کو اس کے ملک میں واپس بھیجنے سے قبل یہ جائزہ ضرور لیں کہ کہیں اسے واپسی پر اپنے حقوق کی پامالی کا خدشہ تو نہیں۔ جن لوگوں کو ایسا خطرہ لاحق ہو انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں، رکن ممالک خطرات سے دوچار افغانوں کو ملک چھوڑنے اور اپنے ہاں گرفتاری یا ملک بدری کے خوف سے بے نیاز ہو کر رہنے کے لیے محفوظ راستے مہیا کریں۔
2023 سے اب تک لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں جس کے باعث افغانستان میں محدود وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں رکن ممالک سے افغانوں کے لیے امدادی مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
امدادی وسائل کی ضرورتافغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ اگرچہ افغان حکام نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں واپس آنے والوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سبھی لوگوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں تمام افغانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اور افغان لوگوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔