سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ وجود ہی نہیں رکھتا، نہ یہ رجسٹرڈ ہے، اس ٹرسٹ کے نام پر 500 کنال زمین عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ملکیت ہے۔

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اگر کوئی ادارہ دینی تعلیم دے رہا ہے یا نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو فروغ دے رہا ہے تو یہ بات کیسے ہوسکتی ہے کہ کسی حکومت کے لیے یا کسی بھی ادارے کے لیے کہ وہ اس کو منہدم کردے یا اس کے خلاف ہوجائے، یہ تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کئی دروازوں سے مذاکرات نہیں چلا کرتے، عرفان صدیقی کی پی ٹی آئی پر شدید تنقید

عرفان صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں 20 ہزار سے زائد مدارس رجسٹرڈ ہیں، یہ سارے مدارس نبی کریم کی تعلیمات کو فروغ دے رہے ہیں، کسی مدرسے کو بند نہیں کیا جاتا، جہاں تک اپوزیشن جس ادارے کی بات کررہی ہے، اس کے ساتھ کچھ اور متعلقات جڑے ہوئے ہیں۔

’معاملہ یہ ہوا ہے کہ ایک ٹرانزیکشن جو یوکے سے ہوئی، ایک دعویٰ یہ ہے کہ وہ ریاست کا پیسہ تھا، دوسرا کلیم یہ ہے کہ وہ ملک ریاض کا ہی پیسہ تھا جو ان کے اکاؤنٹ میں چلا گیا، اگر اس وقت کی حکومت نے ملک ریاض کو کوئی رعایت نہیں دی اور ان اپوزیشن کے بقول برطانیہ کی کرائم ایجنسی نے ان کا حق،ان کو دے دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی حکومت نے ملک ریاض کو رعایت نہیں دی تو ملک ریاض نے 500 کنال زمین اس ٹرسٹ کو کیوں دے دی جس کو جنم لیے ہوئے بھی ابھی 4 دن نہیں ہوئے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی سے مذاکرات میں موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ن لیگ نہیں، عرفان صدیقی

انہوں نے کہا کہ القادر کیس کے فیصلے میں سب کچھ لکھا ہوا ہے، فرحت نامی شہزادی کو بنی گالہ میں 240 کنال زمین دی گئی، وہ کس خوشی میں انہیں دی گئی، پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ عمران خان نے اس سے ایک پائی کا فائدہ نہیں اٹھایا، تو میرا سوال ہے کہ یہ جو سینکڑوں کنال زمین دی گئی ہے، یہ پتا نہیں پائی میں ملتی ہے یا پیسے میں، ڈالرز میں یا پاؤنڈز میں ملتی ہے، اس کی کوئی قیمت ہے نہ۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ جو ٹرسٹ بنایا گیا، وہ ٹرسٹ وجود ہی نہیں رکھتا، 2020 یا 2021 میں پی ٹی آئی حکومت نے ایک قانون بنایا کہ سارے ٹرسٹ نئے سرے سے رجسٹرڈ ہوں گے، القادر ٹرسٹ آج تک رجسٹرڈ نہیں ہے، لہذا یہ ساری ملکیت عمران خان اور ان کی اہلیہ کی ملکیت ہے۔

’حضورﷺ کی سیرت کے لیے کردار و عمل چاہیے‘

’اس کے 4 ٹرسٹی تھے، جن میں سے 2 فارغ کردیے گئے ہیں اور 2 اس کے مالک بن چکے ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی سیرت کے لیے کردار و عمل چاہیے، اس کے لیے صرف شلوار قیمض نہیں چاہیے، اس کے لیے لب و لہجہ اور طرز عمل چاہیے، اس کے لیے اسوہ حسنہ کی تلقین چاہیے جو حضورﷺ نے دیا تھا، یہ صرف شلواروں، قمیضوں سے نہیں آتی۔‘

یہ بھی پڑھیں: القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ، ملک ریاض کو سزا کیوں نہ ہوئی؟

انہوں نے کہا کہ میں ان انگوٹھیوں، ہیروں اور جواہرات کا ذکر نہیں کررہا، اس میں جو پیسہ آیا ہے، اگر اس کا رشتہ جاکے ایسے ادارے کے ساتھ جڑتا ہے اس ادارے کے ساتھ، جس کو آپ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ یونیورسٹی ہے، وہ یونیورسٹی نہیں تھی وہ صرف ایک کالج ہے جو لاہور کے ایک کالج سے جڑا ہوا ہے۔

’عمران خان حکومت میں نہیں تھے تو انہوں نے بڑے اچھے کام کرلیے‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیا کوئی آپ دیوبند یا علی گڑھ کھولنے جارہے تھے، یہ کیا ہے، 4 سالوں میں صرف 200 بچے وہاں پڑھ رہے ہیں، وزیراعظم کو اختیار ہے کہ وہ پورے ملک کے اندر یونیورسٹیوں کے جال بچھا سکتا ہے۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ ٹرسٹ کا کام وہ لوگ کرتے ہیں جو حکومتوں میں نہیں ہوتے، جیسے عمران خان نہیں تھے تو انہوں نے بڑے اچھے کام کرلیے، جیسے عبدالستار ایدھی نے کام کرلیا، جو حکومت میں ہوتا ہے وہ پورے ملک میں یونیورسٹیاں کھول سکتا ہے، اس کو کیا پڑی ہے کہ جس کو وہ رعایت دیتے ہیں اس کے ساتھ مل کے وہ ایک ادارہ کھڑا کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ القادر کیس کے فیصلے میں حقائق کو پڑھیں، اس میں کوئی ہوائی چیز نہیں ہے، ساری کی ساری چیزیں فی الواقعی موجود ہیں، ہمیں کسی ادارے سے کوئی دشمنی نہیں ہے، نہ دینی تعلیم سے دشمنی ہے، یہ چیزیں نہ لائیں بیچ میں، سیاست ہے تو سیاست ہی رہنے دو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news القادر ٹرسٹ کیس بشریٰ بی بی پاکستان پی ٹی آئی سینیٹ اجلاس عرفان صدیقی عمران خان مسلم لیگ ن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: القادر ٹرسٹ کیس پاکستان پی ٹی ا ئی سینیٹ اجلاس عرفان صدیقی مسلم لیگ ن القادر ٹرسٹ پی ٹی ا ئی کنال زمین انہوں نے ملک ریاض کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

خلا کی فتح، زمین کی محرومی

اسلام ٹائمز: ریاست کو، اداروں کو، اور فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ خلا میں تیرتا ہوا سیارہ اس وقت تک قوم کی حقیقی جیت نہیں کہلا سکتا جب تک زمین پر انصاف، روزگار، خوراک اور عزت نہ ہو۔ ایک ایسا نظام جہاں ایک طرف تو ہم چین کیساتھ مل کر خلا میں پرواز کریں، اور دوسری طرف عوام دو وقت کی روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوں، یہ صرف تضاد نہیں، بلکہ ایک چیختی ہوئی حقیقت ہے۔ قومیں صرف اوپر اُڑ کر نہیں بنتیں، وہ نیچے مضبوط ہو کر پرواز کرتی ہیں۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری

چین کی سرزمین پر جیسے ہی PRSS-02 نامی پاکستانی سیٹلائٹ فضا کی بلند ترین تہہ میں داخل ہوا، پاکستان کیلئے ایک اور ’تاریخی لمحہ‘ رقم ہو چکا تھا۔ یہ کوئی عام مصنوعی سیارہ نہ تھا، بلکہ وہ خواب تھا جو کئی برسوں سے سرکاری دفاتر کی فائلوں میں دبا سسک رہا تھا، کبھی بجٹ کی کٹوتی کی نذر، کبھی نیت کی کمی کا شکار، لیکن اس بار خواب نے محض پرواز نہیں بھری، بلکہ خلا میں جا کر یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان اب صرف زمین پر محدود نہیں رہا۔ یہ سیٹلائٹ صرف ڈیٹا اکٹھا کرنے، زمین کی تصویریں اتارنے یا کسی ایک ادارے کی تحقیق کیلئے نہیں، بلکہ ایک بڑی سوچ کی علامت ہے۔ وہ سوچ جو یہ باور کروا رہی ہے کہ پاکستان مغربی کیمپ کی اجارہ داری سے نکل کر ایک نئے جغرافیائی، سائنسی اور اسٹریٹیجک بلاک میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ یہ بلاک نہ صرف تعاون کی بنیاد پر کھڑا ہے بلکہ مشترکہ ترقی اور خودمختاری کی راہ دکھاتا ہے۔ جب مغربی ادارے پاکستان کو محض قرضوں، شرائط، اور اصلاحات کے خول میں قید کرنے کی کوشش کرتے رہے، چین وہ واحد طاقت بن کر سامنے آیا جس نے نہ صرف تعاون کا وعدہ کیا، بلکہ اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ PRSS-02 اسی اعتماد، اسی دوستی اور اسی سائنسی اشتراک کا مظہر ہے۔ یہ پاکستان کے اُن انجینئرز، سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کی محنت کا نتیجہ ہے جنہوں نے سرخیوں کے بغیر، خاموشی سے ایک نئی تاریخ رقم کی۔

مگر خلا کے اس سفر کیساتھ زمین پر ایک اور خاموش خبر بھی اتری اور وہ چین سے حاصل کیے گئے جدید Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹر کی پاکستان میں باضابطہ شمولیت سے متعلق ہے۔ یہ محض عسکری سازوسامان کی خریداری نہیں، بلکہ ایک ٹھوس پیغام ہے کہ پاکستان اب اپنی عسکری خودمختاری کے فیصلے صرف واشنگٹن یا ماسکو میں نہیں، بلکہ اسلام آباد اور بیجنگ میں بھی کر رہا ہے۔ Z-10ME جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کا حامل ہے، اور اس کی شمولیت سے پاکستان کا دفاعی نظام نہ صرف مزید مضبوط ہوا ہے بلکہ سفارتی طور پر بھی پاکستان نے دنیا کو یہ جتلا دیا ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کے رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہتا۔ برسوں سے ہم امریکی شرائط اور روسی پابندیوں کے بیچ الجھے رہے، مگر اب وہ خلا چین کی شراکت سے پُر ہوتا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر کسی سیاسی طعنہ زنی یا شرائط کے۔ یہ دونوں خبریں، سیٹلائٹ کی پرواز اور ہیلی کاپٹر کی شمولیت، بظاہر سائنس و دفاع کے دائرے تک محدود لگتی ہیں، مگر ان کا اصل اثر معاشی، سفارتی اور قومی اعتماد کے دائرے تک جاتا ہے۔ یہ اس اعتماد کی واپسی ہے جسے دہائیوں سے زنگ لگتا رہا۔ یہ بدلتا ہوا تناظر صرف پاکستان ہی نہیں، پورے خطے میں ایک نئی صف بندی کا پتہ دے رہا ہے۔

ایران جیسے ممالک بھی اسی اعتماد سے چین کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، ایران بھی چین سے جدید فضائی دفاعی نظام اور جنگی طیاروں کی خریداری کیلئے پیشرفتہ مذاکرات میں مصروف ہے۔ اگرچہ یہ پیشرفت براہِ راست پاکستان سے متعلق نہیں، لیکن یہ ظاہر کرتی ہے کہ چین خطے میں کئی ممالک کیساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعلقات کو نئے انداز سے مستحکم کر رہا ہے اور یہ بدلتی ہوئی عالمی صف بندی کا ایک اور اشاریہ ہے۔ اسی دوران، ایک اور قدرے غیرنمایاں لیکن بڑی خبر آئی، امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان سے درآمدات پر صرف 19 فیصد ٹیرف عائد کرے گا، جبکہ بھارت سے 25 فیصد۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بعض خوش فہم افراد نے اس اعلان کو ایک بڑی کامیابی سمجھ کر جشن منایا، گویا واشنگٹن نے IMF کے بدلے ہمارے آم، کپاس اور چاول خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ٹیرف میں رعایت نہیں، بلکہ ہماری غیر مساوی معیشت کی ایک خاموش چارج شیٹ ہے۔ دنیا ہمیں اب بھی تجارتی طور پر کمزور سمجھتی ہے، اسی لیے ہمیں رعایت دی جاتی ہے، مسابقت نہیں۔ اگر ہماری معیشت واقعی طاقتور اور آزاد ہوتی، تو یہ فرق ہی ختم ہو چکا ہوتا۔ جبکہ درحقیقت پاکستان ایک مقروض ملک ہے، اور اب اس کیساتھ امریکہ نے "مائننگ" کے نام پر ایک بڑا معاہدہ کیا ہے، جس پر راقم سمیت کئی لوگ انگشت بدندان ہیں کہ ایک طرف چین کا پُر خلوص تعاون اور دوسری طرف امریکہ سے معاہدہ، یہ خیال عام ہے کہ اگر یہ معاہدہ چین کے ساتھ ہوتا تو زیادہ مؤثر اور باہمی مفاد کا حامل ہوتا۔ اس معاہدے کے اصل مقاصد اور اسرار تو فی الحال عوام کے سامنے نہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اب پاکستان سے "خریدنے" نہیں، "کمانے" کی نیت سے آیا ہے۔ ایسے میں تو ٹیرف مکمل طور پر ختم ہونے چاہئیں تھے۔

آپ ایک ملک سے معدنیات نکالنے جا رہے ہیں، جس کی معیشت پہلے ہی قرضوں میں دبی ہوئی ہے، تو وہاں سے درآمدات پر ٹیکس کیوں؟ یہ رعایت نہیں، بلکہ اخلاقی ذمہ داری ہونی چاہیے تھی۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے ہمارا میڈیا خوش کن سرخیوں میں لپیٹ کر پیش کر رہا ہے، جب کہ زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے۔ تو سوال وہی ہے جو زمین پر رہتا ہے یعنی کیا PRSS-02 اور Z-10ME جیسے سنگِ میل عام پاکستانی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لا سکیں گے؟ یا یہ صرف اسٹیبلشمنٹ، پالیسی سازوں اور میڈیا کے لیے ایک وقتی واہ واہ کا سامان ہیں؟ کیا وہ کسان جو بادلوں کو دیکھ کر فصل کا اندازہ لگاتا ہے، کبھی سیٹلائٹ سے حاصل کردہ موسمیاتی ڈیٹا سے فائدہ اٹھا سکے گا؟ کیا وہ نوجوان جو خواب دیکھتا ہے کہ خلا میں کام کرے گا، کبھی ان اداروں تک پہنچ پائے گا جہاں یہ خواب حقیقت میں ڈھلتے ہیں؟ ہم ایک ایسا ملک بن چکے ہیں جہاں بڑی کامیابیوں پر تالیاں بجتی ہیں، مگر ان کے اثرات زمین پر موجود عوام کی زندگی میں اترتے نظر نہیں آتے۔ ہمارا ٹیکس نظام اب بھی عام شہری کی ہڈیوں میں دراڑ ڈال رہا ہے، تعلیمی ادارے خود کشمکش کا شکار ہیں، اور صحت کا شعبہ اب بھی پلاسٹک کی بوتلوں میں آکسیجن ڈال کر گزارا کر رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ خلا میں سیارہ بھیجنا ہماری صلاحیت کا ثبوت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ Z-10ME جیسے آلات سے ہماری عسکری دفاع مضبوط ہوا ہے۔ مگر اصل کامیابی تب ہوگی جب ان فتوحات کا عکس تعلیم، معیشت، صحت، اور انصاف میں نظر آئے گا۔

ریاست کو، اداروں کو، اور فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ خلا میں تیرتا ہوا سیارہ اس وقت تک قوم کی حقیقی جیت نہیں کہلا سکتا جب تک زمین پر انصاف، روزگار، خوراک اور عزت نہ ہو۔ ایک ایسا نظام جہاں ایک طرف تو ہم چین کیساتھ مل کر خلا میں پرواز کریں، اور دوسری طرف عوام دو وقت کی روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوں، یہ صرف تضاد نہیں، بلکہ ایک چیختی ہوئی حقیقت ہے۔ قومیں صرف اوپر اُڑ کر نہیں بنتیں، وہ نیچے مضبوط ہو کر پرواز کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ ہم ’کامیابیاں‘ گنوانے کے ساتھ اُن ’کمیوں‘ کا بھی احتساب کریں جنہیں برسوں سے نظر انداز کیا گیا۔ اور یہ مان لیں اگر ہم خلا میں پہنچ سکتے ہیں تو زمین پر بھی بہت کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔ مگر یہ تب ہوگا، جب ہم نیت کریں گے۔ جب ہم نعرے نہیں، نظام بدلیں گے اور جب ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ "ہاں، یہ سیٹلائٹ عام آدمی کی زندگی میں بھی کچھ بدل چکا ہے۔"

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کی تحریک صرف ایک دن کے احتجاج میں بدل چکی ہے ، عرفان صدیقی
  • پی ٹی آئی کی تحریک صرف ایک دن کے احتجاج میں بدل چکی، عرفان صدیقی
  • خلا کی فتح، زمین کی محرومی
  • عمران خان نے ڈیل کی آفر لے جانے پر علی امین پر جوتی اٹھا لی تھی، سہیل وڑائچ کا انکشاف
  • توشہ خانہ 2 کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف نیب گواہ کا بیان قلمبند
  • تحریک تحفظ آئین کی اے پی سی کے اعلامیے پر بی ایل اے کی چھاپ شرمناک ہے، عرفان صدیقی
  • تحریک تحفظ آئین کی اے پی سی کے اعلامیے پر بی ایل اے کی چھاپ شرمناک ہے، عرفان صدیقی
  • نواز شریف سیاست میں متحرک کردار ادا کرتے رہیں گے، سینیٹر عرفان صدیقی کی وضاحت
  • نواز شریف کی سیاست سے لاتعلقی کی خبریں، سینیٹر عرفان صدیقی نے وضاحت کردی
  • پی پی پی کے علاوہ کسی جماعت نے خواتین کو گھروں کی ملکیت دینے کا قدم نہیں اٹھایا، آصفہ بھٹو