قومی ہیروارشد ندیم نے عمرے کی سعادت حاصل کر لی
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
قومی ہیرو، ملک کے صفِ اوّل کے ایتھلیٹ، اولمپین جیولین تھروور ارشد ندیم نے عمرے کی سعادت حاصل کر لی۔
فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر پاکستان کو 40 برسوں بعد گولڈ میڈل جتوانے والے جیویلن کھلاڑی ارشد ندیم نے تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ خوش خبری شیئر کی ہے۔
انہوں نے بیت اللّٰہ کے سامنے احرام میں تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زندگی میں پہلی بار عمرے کی سعادت حاصل کی ہے جس پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں۔
سوشل میڈیا پر انہوں نے کیپشن میں لکھا ہے کہ اس بابرکت موقع پر الحمدللّٰہ میں نے پہلا عمرہ کیا، پوری امت اور اپنے عزیز وطن کے لیے دعا کی، اللّٰہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اسے ممکن بنایا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔
حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔
عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔