جسٹس منصورعلی شاہ کے ساتھ کھڑے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ بارکااعلامیہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آ باد: اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ جسٹس سید منصورعلی شاہ کے بینچ میں سے ایک مخصوص کیس نکالنا سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے کی نفی و توہین عدالت کے مترادف ہے، جسٹس منصور کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ بار ہمیشہ آئین قانون کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے کھڑی رہی ہے، جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس کے وقت سینئر جج مخاصمت میں بینچ تبدیل کرتے تھے تو ہم قاضی فائز عیسی کی حمایت کرتے تھے۔
اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ ویسے سپریم کورٹ کے پشاور بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسی و جسٹس سید منصور علی شاہ نے اس معاملے کو طے کر دیا تھا، جب ایک دفعہ کوئی کیس کسی بینچ میں لگ جائے اور اس کی شنوائی ہو تو اس کیس کا حتمی فیصلہ ہونے تک وہی بینچ سماعت و تصفیہ کرے گا۔
اسلام ہائی کورٹ بار نے کہا کہ جسٹس سید منصورعلی شاہ کے بینچ میں سے ایک مخصوص کیس نکالنا سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے کی نفی و توہین عدالت کے مترادف ہے، ہم ماضی کے فیصلوں کی روشنی میں اصولی موقف کے حوالے سے جسٹس سید منصورعلی شاہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ جو کیس پہلے سے وہ سن چکے ہیں وہی کیس ان کے سامنے لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ سپریم کورٹ نہیں بلکہ سرکاری عمل داری کا ایک ذیلی ادارہ کہلائے گا جو آئین سے ماورائے اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ تصور ہو گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے کہا کہ ہم وکلا پہلے کی طرح آج بھی متحرک اور منظم ہیں عدلیہ کی آزادی اور آئین کے اصلی حالت میں بحالی تک جدو جہد کو جاری رکھیں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ بار منصورعلی شاہ کے سپریم کورٹ
پڑھیں:
پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ ) سپریم کورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے پارا چنار حملہ کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں۔پارا چنار قافلے پر حملے کے دوران گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔دورانِ سماعت سی ٹی ڈی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ واقعے میں 37 افراد جاں بحق ، 88 افراد زخمی ہوئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اس واقعہ میں ایک ہی بندے کی شناخت ہوئی ہے کیا ؟ جو حملہ کرنے پہاڑوں سے آئے تھے، ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا؟وکیل نے جواب دیا کہ ان میں سے 9 لوگوں کی ضمانت سپریم کورٹ نے خارج کی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ اب کیا صورت حال ہے، راستے کھل گئے ہیں ؟ ، جس پر وکیل نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے دن 2 بجے تک راستے کھلے رہتے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے سی ٹی ڈی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، آپ اپنا دشمن پہچانیں، صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔بعد ازاں عدالت نے ملزم کو وکیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔