26آئینی ترمیم آزاد عدلیہ کے خلاف سازش ہے، ایڈووکیٹ راحب بلیدی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
کوئٹہ(نمائندہ جسارت)بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین راحب خان بلیدی ایڈووکیٹ ، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی امان اللہ خان کاکڑ نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور لاہور بار ایسوسی ایشن سمیت مختلف سول سوسائٹی کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ 26 آئینی ترمیم آزاد عدلیہ کے خلاف سازش تھی اور عدلیہ کو مکمل طور پر ایگز یکٹیوکے تابع بنایا گیا جس کے خلاف ملک گیر وکلاء نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف تحریک کا آغاز کیا راتوں رات ممبران پارلیمنٹ کو اغواء کرکے 26 ویں آئینی ترمیم لایا اور ترمیم کو بلوچستان بار کونسل سمیت سپریم کورٹ بار کے سابق صدور ممبران پاکستان بار کونسل مختلف سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی خواتین مزدور تنظیموں نے اس آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا ۔لیکن افسوس کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس پر فل کورٹ بنانے میں قاصر ہیں۔اپنے بیان انہوں نے کہا ہے کہ میں کہا کہ آزاد عدلیہ کیلیے وکلاء تنظیموں کا ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کے چیئرمین منیر اے، ملک علی احمد کرد اور حامد خان سمیت دیگر قائدین نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک بھر میں کانفرنس احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ خوش آئند ہے بیان میں کہا کہ آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا بیان میں کہا کہ بلوچستان بار کونسل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار ایسوسی ایشن سمیت سول سوسائٹی خواتین مزدور تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ویں ا ئینی ترمیم بار کونسل ترمیم کو کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کمیشن کو معیشت کے تمام شعبوں میں انکوائری اور کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
عدالت کے فیصلے نے ٹیلی کام انڈسٹری کے اس طویل مقدمے کا اختتام کر دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیرِ سماعت تھا۔
تفصیلات کے مطابق جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب سمیت 7 بڑی کمپنیوں نے کمپٹیشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ ٹیلی کام سیکٹر پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے ضابطوں کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے کمپٹیشن کمیشن کو مداخلت کا اختیار حاصل نہیں۔
عدالت نے واضح فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کمیشن کا دائرہ کار معیشت کے تمام شعبوں پر محیط ہے، بشمول ٹیلی کام سیکٹر کے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کی موجودگی کمیشن کے اختیارات کو محدود نہیں کرتی، بلکہ قانون کے مطابق کمیشن کو مارکیٹ میں شفاف مقابلے، منصفانہ پالیسیوں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ مقدمہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کمپٹیشن کمیشن نے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو گمراہ کن مارکیٹنگ کے الزام میں شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔ ان نوٹسز میں کمپنیوں سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ وہ ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ جیسے دعووں کے باوجود صارفین کو محدود سروس فراہم کیوں کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پری پیڈ کارڈز پر ’’سروس مینٹیننس فیس‘‘ کے اضافی چارجز کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا گیا تھا۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء میں ان شوکاز نوٹسز پر اسٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا، جس کے باعث کئی سال تک کمیشن کی کارروائی معطل رہی، تاہم اب عدالت نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ کمپٹیشن کمیشن کو تمام اقتصادی شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے، ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہیں۔