چیمپئینز ٹرافی؛ افغان ٹیم کیخلاف میچ کا بائیکاٹ مسئلے کا کوئی حل نہیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
انگلش ٹیم کے کپتان جوز بٹلر کا کہنا ہے کہ چیمپئینز ٹرافی میچ کے دوران افغان ٹیم کا بائیکاٹ کرنا کوئی مسئلے کا حل نہیں اور ہم میگا ایونٹ کے دوران انکے خلاف میچ کھیلیں گے۔
رواں ماہ کے آغاز میں 160 سے زائد برطانوی سیاستدانوں نے انگلینڈ کرکٹ بورڈ (ای سی بی) سے اگلے ماہ پاکستان میں شیڈول آئی سی سی چیمئینز ٹرافی میں افغانستان کرکٹ ٹیم کیخلاف میچ سے بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سال 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ویمز ٹیم کی کھیلوں میں شرکت پر پابندی عائد ہے، جس کے خلاف افغانستان کرکٹ بورڈ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: چیمپئینز ٹرافی؛ انگلینڈ، افغانستان کیخلاف میچ کا بائیکاٹ کرے، مگر کیوں؟
انگلینڈ کی مینز ٹیم کو 26 فروری کو لاہور میں افغانستان سے مقابلہ کرنا ہے۔
تاہم اس حوالے سے گزشتہ روز انگلش ٹیم کے کپتان جوز بٹلر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے سیاسی حالات کا راستہ بات چیت ہوتی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ افغان ٹیم کیخلاف میچ کا بائیکاٹ کرنا کوئی مسئلے کا حل ہے۔
مزید پڑھیں: خواتین کے حقوق کا بہانہ آسٹریلیا کا افغانستان سے سیریز کھیلنے سے انکار
انہوں نے کہا کہ 2003 کرکٹ ورلڈکپ کے دوران انگلینڈ کے ساتھ بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی تھی، جب سابق کپتان ناصر حسین کی ٹیم کو رابرٹ موگابے کی قیادت میں زمبابوے کے خلاف اپنے میچ کا بائیکاٹ کردیا تھا جس کے بعد ہمیں دنیا بھر سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جوز بٹلر کا کہنا تھا کہ ماہرین اور سیاستدانوں کو مسئلہ ہے وہ کیسے اس چیز کو دیکھتے ہیں لیکن بطور کھلاڑی ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ میچ کا بائیکاٹ کریں اور سیاست کے ذریعے کرکٹ کا ماحول خراب ہو۔
مزید پڑھیں: آسٹریلیا نے افغانستان کیخلاف ون ڈے سیریز کھیلنے سے انکار کردیا
خیال رہے کہ انگلش ٹیم چیمپئینز ٹرافی سے قبل جوز بٹلر کی ٹیم بھارت کے خلاف پانچ ٹی20 اور 3 ون ڈے میچوں کی سیریز کھیلے گی، انگلینڈ چیمپئینز ٹرافی 2025 میں اپنی مہم کا آغاز آسٹریلیا کے خلاف میچ سے کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپئینز ٹرافی کیخلاف میچ خلاف میچ جوز بٹلر کے خلاف ٹیم کی
پڑھیں:
طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے سلامتی کونسل کو ملکی حالات سے آگاہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ملک اور عالمی برادری کے مابین تعاون کی راہ نکال لی جائے گی جس سے وہاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین سال قبل جب وہ افغانستان پہنچیں تو وہاں عبوری حکام میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے تھے۔
ایک حلقہ افغان عوام کی ضروریات کو ترجیح دینے کا حامی تھا تو دوسرا خالص اسلامی نظام کے قیام پر زور دیتا تھا جس نے عوام پر بہت سے پابندیاں نافذ کی ہیں۔(جاری ہے)
Tweet URLطالبان حکام کی جانب سے لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نے ایک پوری نسل کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس سے ملک کو طویل المدتی طور پر بہت بھاری نقصان ہو سکتا ہے جبکہ ان پابندیوں سے افغان معاشرے میں شدید بے چینی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔
'یو این ویمن' کے مطابق افغان عوام کی اکثریت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالف ہے جبکہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے افغان معیشت کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
مثبت اشاریےانہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد قدرے مثبت پیش رفت کی نشاندہی بھی کی جس میں مسلح تنازع اور وسیع پیمانے پر تشدد میں نمایاں کمی بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصوں میں سلامتی کی صورتحال قدرے مستحکم ہو گئی ہے۔
2023 کے اوائل میں پوست کی کاشت پر عائد کی جانے والی پابندی بڑی حد تک برقرار ہے جس کے فوائد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کو بھی حاصل ہو رہے ہیں۔
عام معافی کے حکم پر مجموعی عملدرآمد حوصلہ افزا ہے۔ ملک میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) اور عبوری حکام کے درمیان تعمیری روابط بھی موجود ہیں جن کے نتیجے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ٹیموں کو ملک کی تمام 34 جیلوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔
بحرانوں کا طوفاناوتونبائیووا نے کہا کہ مردوخواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں پر عائد کی جانے والی بڑھتی ہوئی پابندیوں اور ان پر عملدرآمد سے عوام میں عبوری حکام کے خلاف بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔
ملک کو رواں سال انسانی امداد میں تقریباً 50 فیصد کٹوتی کا سامنا ہے اور اگلے سال اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ کٹوتیاں جزوی طور پر افغانستان کی خواتین مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
ملکی معیشت اب بھی مشکلات کا شکار ہے اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی کے نتیجے میں اس پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ملک کو خشک سالی اور دیگر موسمیاتی حوادث کا سامنا بھی ہے جس سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ آئندہ برسوں میں 60 لاکھ آبادی پر مشتمل دارالحکومت کابل دنیا کا ایسا پہلا بڑا شہر بن سکتا ہے جہاں پانی ختم ہو جائے گا۔
مسائل کے حل کی امیدرواں ماہ کے اختتام پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے والی روزا اوتنبائیوا نے کہا کہ کابل اور دیگر علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں خواتین ملازمین کی رسائی کو روکنے جیسے اقدامات سے اقوام متحدہ کی امدادی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ سلامتی کونسل طالبان حکام سے خواتین کے روزگار پر پابندی کے خاتمے کی اپیل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا جامع نقطۂ نظر واحد کثیرالجہتی فریم ورک مہیا کرتا ہے جو عالمی برادری اور عبوری حکام کے درمیان رابطے کا ذریعہ اور ایک ایسا سیاسی راستہ ہے جس کے ذریعے ان پیچیدہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے جو افغانستان کی عالمی نظام میں دوبارہ شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔