Jasarat News:
2025-11-04@04:39:41 GMT

ٹکراؤ کی سیاست اور عوامی مفادات

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ٹکراؤ کی سیاست اور عوامی مفادات

اسلام آباد میں جاری سرکس کا یہ کھیل عام آدمی کے مفاد یاپاکستان کی مجموعی سیاست کو دیکھیں تو اس میں تناؤ ٹکراؤ اور تفریق کے پہلو نمایاں ہیں۔ محاذآرائی اور سیاسی دشمنی نے سیاسی جماعتوں میں فاصلے پیدا کر دیے ہیں۔ اتفاق رائے کی سیاست کے مقابلے میں ایک دوسرے پر سیاسی بالادستی کی جنگ غالب نظر آتی ہے۔ طاقت کے مراکز ایک دوسرے سے نہ صرف الجھے ہوئے ہیں بلکہ اپنی طاقت کو بنیاد بنا کر دوسروں پر بالادستی چاہتے ہیں۔ حکومت اپوزیشن اورپس پردہ اسٹیبلشمنٹ سمیت بیوروکریسی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ سیاسی بحران نہیں اور نہ ہی معاشی بحران ہے بلکہ اس کی ایک اہم جہت ریاست کے بحران سے جڑی نظر آتی ہے۔ کیونکہ جب ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرینگے تو اس سے سیاسی معاشی اور سیکورٹی کا استحکام ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اس پورے کھیل میں سیاسی جماعتوں کیساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک فریق کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت کی بنیاد پر عدلیہ کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔ جب کہ عدلیہ بھی کسی نہ کسی شکل میں اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس بحران نے ہمارے داخلی علاقائی اور خارجی معاملات کو کافی حد تک مشکل میں ڈالا ہوا ہے اور اسی بنیاد پر ہماری مجموعی ساکھ پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں اور لوگ کافی نالاں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ عام آدمی کو جو مسائل بنیادی نوعیت کے درپیش ہے اس کا کوئی حل ان کو نظر نہیں آرہا۔ جو سیاست جمہوریت اور آئین کی پاسداری کے دعوے کیے جا رہے ہیں اس میں عام آدمی کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ طاقت کی اس لڑائی میں سب سے زیادہ عام آدمی کا استحصال ہو رہا ہے اور اس کی زندگیوں میں مشکلات پیدا ہو رہیں۔ لیکن شاید عام آدمی کے حالات کو بدلنے کی ترجیحات ہمارے نظام کا حصہ نہیں ہے۔ سیاسی طور پر ہم نے اپنے آپ کو الجھا لیا ہے اور سیاسی تقسیم نے لوگوں میں مزید سیاسی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ سب یہی کہتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہر فریق کا آئین اور قانون اس کی نظر میں مختلف ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی آمدنی اور اخراجات میں جو عدم توازن پیدا ہو رہا ہے اس نے اس کی معاشی معاشی حالت کو کافی خراب کر دیا ہے۔ پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ ملک چھوڑ رہا ہے اور وہ ملک کے حالات سے کافی مایوس نظر آتا ہے۔ لوگوں میں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ اس ملک کے نظام میں ان کی گنجائش کم ہوئی ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل یا انصاف کی فراہمی کا نظام کافی متاثر ہوا ہے۔ ایک طبقاتی نوعیت کی حکمرانی کا نظام ہے جو ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری کو مضبوط بناتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی سیاست میں کنٹرول پہلے بھی تھا لیکن اب بہت بڑھ گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خود کو بے بس سمجھتی ہیں یا انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنے مفادات کو زیادہ تحفظ دیا ہے۔ سول سوسائٹی میڈیا اور عدلیہ کی آزادی پر بہت سے سوالات نظر آرہے ہیں۔ عالمی دنیا میں بھی ہماری ریاستی ساکھ پر سوال اٹھائے گئے ہیں اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم جمہوریت سے کافی دور دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی کافی تشویش پاکستان کے اندر بھی پاکستان سے باہر بھی پائی جاتی ہے۔ حکومتیںبھی اگرچہ دعوے کرتی ہے کہ اس نے عام آدمی کی حالت کو بہت بدل دیا ہے اور میڈیا پر بڑے بڑے اشتہارات کی بنیاد پر ترقی کے ماڈل کو بھی دکھایا جا رہا ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ لوگ بدحال ہیں اور ان کے پاس ترقی کرنے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کوبھی خیراتی منصوبوں میں الجھا دیا گیا ہے اور ان کی ذات کی میڈیا پر سیاسی تشہیر کی جا رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کا میدان اس وقت سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور حکومت کا ریگولیٹ سسٹم ناکامی سے دوچار ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں اس وقت طاقت کی لڑائی ہے اور اس طاقت کی لڑائی میں وہ صرف اپنا حصہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کو جمہوریت کے نام پر ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہاہے۔ یہ لڑائی سیاستدانوں کی جمہوریت سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی عوام کے مسائل سے لا تعلقی کا پہلو بڑا مایوس کن ہے۔ جماعتوں کی توجہ کا مرکز اسٹیبلشمنٹ ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی طور پر رام کرنے کے لیے ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے ان کے اقتدار کو تحفظ مل سکے۔ لیکن عوام کو کیسے تحفظ ملے گا اس کا جواب پورے سیاسی نظام کے پاس نہیں ہے۔ خاص طور پر وہ جماعتیں جو وفاق صوبوں میں بار بار حکومتوں کا حصہ ہیں یا رہی ہیں لیکن عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔جمہوریت سے مراد عام آدمی کے مفادات ہوتے ہیں اور جب تک ایک جمہوری نظام میں عام آدمی کو اس کا حصہ نہیں ملتا تو وہ جمہوریت کے ساتھ کیوں اپنی وابستگی کو جوڑ ے گا۔ حقیقی جمہوریت کے مقابلے میں ایک ہائبرڈ اور کنٹرولڈ جمہوریت کا نظام بھی ہمارے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔ لیکن لگتا ایسا ہے جیسے ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے ذرا بھی تیار نہیں ہیں اور ایک نیم حکیم سیاسی اور جمہوری نظام کو چلانا ہماری سیاسی مجبوری بنا ہوا ہے۔ ٹھیک ہے ریاست جو پہلے ہی جمہوریت کے تناظر میں کمزور ہے اور اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے وہاں جمہوریت کا مضبوط نہ ہونا مزید جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ دنیا بھر میں عمومی طور پر سیاسی جماعتیں عوام کے ساتھ کم کھڑی ہوتی ہیں اور ان کے حق کی جنگ لڑتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں بڑی جماعتوں کی ترجیحات میں عوام کے مقابلے میں طاقتور مراکز ہیں۔ اس لیے یہاں جو بھی احتجاجی تحریک چل رہی ہے یا ٹکراؤ کی سیاست ہے اس کے پیچھے بھی عوام سے زیادہ بڑی طاقتوں کی سیاسی خوشنودی کا حصول ہے۔ جب تک سیاست عام آدمی تک نہیں پہنچے گی اور لوگوں کو نظر نہیں آئے گا کہ جمہوریت ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکتی ہے اس نظام کی ساکھ قائم نہیں ہو سکے گی۔اب سوال یہ ہے کہ عام آدمی کیا کرے اور کس سے اپنے دکھ کا اظہارکرے۔ کیونکہ عام آدمی کی آواز سننے کے لیے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ اور طاقتور طبقہ تیار نہیں ہے۔ لوگوں کو جھوٹی تسلیاں اور خوشنما نعروں میں الجھا کر ایک بڑی ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ ترقی کے نام پر زمینی حقائق بہت تلخ ہیں اور لوگوں کی زندگیوں میں دکھ پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے موجودہ نظام اپنی افادیت کھو رہا ہے اور اس نظام میں عام آدمی کا حصہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگوں کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے بنیادی حقوق کی پاسداری کر سکیں۔ اس عمل یا نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں یا اصلاحات درکار ہیں لیکن ان اصلاحات کی کڑوی گولیاں کھانے کے لیے کوئی تیارنہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس مربوط نظام نہیں ہے اور وہ وقت گزاری کی سیاست کر رہی ہیں جس میں ان کے ذاتی مفادات اہمیت رکھتے ہیں سیاسی جماعتوں کے اس کردار نے پورے سیاسی نظام میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے۔ جب سیاسی قیادتیں سیاسی بونوں کی طرح ہوں گی اور ان کے معاملات بہت محدود ہوں گے تو ان سے بڑے نظام کی توقع کرنا بھی خوش فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔ طاقت کی اس لڑائی کو عام آدمی کی لڑائی کے ساتھ کیسے جوڑا جائے یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ لیکن پھر یہ سوال بھی بنتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور ہم کام کا آغاز کہاں سے کریں گے۔ کیونکہ ہمیں عوامی مفادات کو تقویت دینے کے لیے سخت گیر اور کڑوی گولیاں ہضم کرنی پڑیں گی۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اس ملک کی سیاسی اشرافیہ خود بھی اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کرے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے حالات ہمارے لیے کافی پریشان کن ہیں۔ ان علاقوں میں موجود انتہا پسندی‘ شدت پسندی یا دہشت گردی جیسے امراض کا علاج تلاش کر کے ہی ہم وہاں سیاسی استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ طاقت کے انداز میں ہم مسائل حل نہیں کرسکیںگے بلکہ مسائل کو اور زیادہ گمبھیر بنا دیںگے اور یہ عمل ریاست کے مفاد کے برعکس ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں عام آدمی کا عام آدمی کی جماعتوں کی جمہوریت کے رہا ہے اور جا رہے ہیں ایک دوسرے ہے اور اس لوگوں کو کی سیاست نہیں ہے کے ساتھ طاقت کی ہیں اور پیدا کر اور ان کا حصہ ہوا ہے دیا ہے کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر

دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری
افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرلے اس بار جواب زیادہ شدید ہوگا،سینئر صحافیوں کو بریفنگ

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی۔پاکستان اپنی سرحدوں، عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے ۔27 ویں آ ئینی ترمیم کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔27 ویں آ ئینی ترمیم پر تجاویز مانگیں تو اپنی سفارشات دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن فوج کا حصہ بننے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے، 2014 میں 38 ہزار مدارس تھے اب ایک لاکھ کے قریب مدارس بن چکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔مدارس کی رجسٹریشن اب بھی ایک سوال ہے۔سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں۔منتخب سیاستدان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کا کام ریاست کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں پوست کی فصل کو تلف کر رہے ہیں۔تیراہ اور کے پی میں خفیہ آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں۔دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اس سال6200 انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے ۔آپریشنز کے دوران1667 دہشتگرد مارے گئے۔ جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206افغان طالبان اور 100 سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز زیادہ ہورہے ہیں اور کے پی میں دہشت گرد زیادہ مارے جارہے ہیں، یہ لوگ فوج کے خلاف کام کرتے ہیں اور عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں، یہ لوگ جسے عشر کہتے ہیں یہ بھتہ ہے، یہ بارڈر اوپن چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جاسکے، اس کا حصہ طالبان کو بھی جاتا ہے اور وارلارڈز کو بھی ملتا ہے، یہ آئس ہماری یونیورسٹیوں تک جارہی ہے ہماری نوجوان نسل کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمائدین، دہشت گرد، جرائم پیشہ لوگ مل کر قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں، کئی بار فوج نے علاقہ کلیٔر کیا مگر سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی دبا وکے سبب کام نہیں کرپا رہی، اسمگلرز دہشت گردوں سے مل کر کام کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں، افغانستان سے جڑے معاملات کا حل صرف وہ حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتی، دہشتگردی کا خاتمہ اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔دوحہ، استنبول مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں منشیات اسمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان کا رسپانس فوری اور موثر تھا، پاکستان کے رسپانس کے وہی نتائج نکلے جو ہم چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارے ہاں علما، میڈیا اور سیاست دانوں کو یک زبان ہونا ہوگا تب فیصلے کرسکیں گے۔افغان طالبان رجیم تبدیل کرنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا،میزائل تجربے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ڈویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • سیاست سہیل آفریدی کا حق، اپنے صوبے کے معاملات دیکھنا بھی ان کی ذمہ داری: عطا تارڑ
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال
  • ذاتی مفادات کی سیاست چھوڑ کر قومی مفاد کے لیے کام کریں، رانا ثنا اللہ کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو تلقین