گستاخوں کی ضمانتیں،آرمی چیف و چیف جسٹس نوٹس لیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے وکیل نے جسٹس اقبال کلہوڑو کی ہدایت پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سر!چونکہ جن ملزمان کی جانب سے دائر درخواست ضمانتیں آج سماعت کے لئے مقرر ہیں، وہ تمام ملزمان کسی ایک مقدمے میں نہیں بلکہ مختلف مقدمات میں الگ الگ نامزد ہیں ،اس لئے گزشتہ تاریخ سماعت پر عدالت نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم ہر مقدمے کے متعلق الگ الگ چارٹ بنا کر پیش رفت رپورٹ جمع کرائیں۔اس حکم کی Compliance ہم نے کر دی ہے۔ جبکہ گزشتہ تاریخ سماعت پر ہی جو دوسرا حکم ہمیں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پر جواب جمع کرانے کے لئے دیا گیا تھا،اس کی Compliance کرنے کے لئے ہمیں کچھ وقت چاہیے۔اس پر جسٹس اقبال کلہوڑو غصے میں آگئے اور انہوں نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کون ہیں؟کیا میں نے آپ کو بولنے کی اجازت دی تھی جو آپ بول رہے ہیں؟میں ابھی آپ کو توہین عدالت کا نوٹس دے کر جیل بھیج سکتا ہوں،ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے وکیل نے جواب دیا کہ سر!آپ نے میری طرف ہی دیکھ کر کہا تھا کہ شروع کریں اور جو آرڈر گزشتہ تاریخ سماعت پر ہمیں کیا گیا تھا، میں اس کی Compliance ہی عدالت کو بتا رہا ہوں۔اس پر جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ میں نے تو وہ آرڈر نہیں کیا تھا کہ جس کی Compliance آپ مجھے بتا رہے ہیں۔میں آپ کو ابھی معطل بھی کروا سکتا ہوں۔جس کے جواب میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سر!آپ نے آرڈر نہیں دیا تھا لیکن اس کورٹ کا آرڈر تھا۔میں معذرت چاہتا ہوں۔اس کے بعد جسٹس اقبال کلہوڑو نے سوال کیا کہ مدعی مقدمہ کون ہے؟جس پر ایف آئی آر نمبر 14/24کا مدعی روسٹرم پر آیا۔ جسٹس اقبال کلہوڑو نے مدعی مقدمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ’’یا تمہیں کلمے بھی آتے ہیں۔میں ابھی اگر تم سے کلمے سنوں تو تمہیں وہ بھی نہیں آتے ہوں گے۔‘‘ تمہیں کیا پتا کہ گستاخی کیا ہوتی ہے؟تم نے اس کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔(اس موقع پر درخواست گزار یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کے مدعی مقدمہ کے متعلق مذکورہ ریمارکس ہتک آمیز ہیں۔ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ حج کے منصب پر بیٹھ کر یہ دیکھے کہ کس کو کلمے آتے ہیں اور کس کو نہیں؟اس بات کا اندراج مقدمہ کرانے سے کیا تعلق ہے؟کیا وہ اپنے آپ کو کامل مسلمان سمجھتے ہیں؟جس شخص سے وہ کلمے آنے یا نہ آنے کا سوال کر رہے تھے،اس شخص کے چہرے پر سنت رسول ﷺ داڑھی بھی سجی ہوئی تھی۔اس کے حلیے سے واضح تھا کہ کم سے کم اسے دین اسلام کی بنیادی معلومات ہیں۔جبکہ اس کے برعکس جسٹس اقبال کے متعلق سوالات اٹھتے ہیں۔)
مدعیان مقدمہ کے وکیل میر سیف اللہ نے اس موقع پر مذکورہ جج سے استدعا کی کہ میں نے آج ہی وکالت نامہ جمع کرایا ہے۔میرے پاس ملزمان کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن کی کاپی بھی نہیں ہے۔اس لئے ہمیں ایک تاریخ دے دیں۔تاکہ تیاری کر کے دلائل پیش کر سکیں۔اس پر مذکورہ جج نے ریمارکس دیئے کہ میں کوئی تاریخ نہیں دوں گا۔آج ہی فیصلہ کروں گا۔پھر انہوں نے یکطرفہ طور پر دس گستاخوں کی جانب سے دائر آٹھ درخواست ضمانت میں گستاخوں کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا میں سے صرف ایک وکیل تنویر احمد کے یکطرفہ دلائل سننے کے بعد مذکورہ دس گستاخوں کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔اسی طرح گزشتہ روز بھی جب مزید دو گستاخوں کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد از گرفتاری کی جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کے روبرو سماعت ہوئی تو سماعت کے آغاز پر مدعی مقدمہ حافظ احتشام احمد کے وکیل سردار عبد الحمید ایڈووکیٹ نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مدعی نے آپ کے خلاف مس کنڈکٹ کا مرتکب ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔لہٰذا انصاف کا تقاضہ ہے کہ آپ ان درخواستوں کو کسی دوسرے بینچ میں منتقل کر دیں۔جسٹس ایم اقبال کلہوڑو نے مذکورہ استدعا کو مسترد کرتے ہوئے گستاخ ملزمان کے وکلا کو دلائل پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔جس کے بعد مذکورہ ملزمان کے وکلا ذیشان احمد قاضی اور فرزانہ نے مختصر دلائل دیئے۔ بعدازاں مدعی مقدمہ کے وکیل نے دلائل شروع کئے تو اس دوران ہی فاضل جج نے مختصر فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا اور مذکورہ ملزمان کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔واضح رہے کہ دوران سماعت ایف آئی اے کی طرف سے کوئی بھی عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوا اور نہ ہی عدالت کے رو برو مذکورہ ملزمان کے خلاف مقدمے کا ریکارڈ پیش کیا گیا۔
متذکرہ بالا تمام حقائق و واقعات پڑھ کر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ حساس ترین معاملے میں آئین،قانون اور انصاف کے تقاضوں کا قتل کیا جارہا ہے۔بالخصوص مذکورہ ریفرنس کے مذکورہ متن کو پڑھنے کے بعد اس خاکسار کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا کسی عدالت کی عزت و وقار مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی عزت و ناموس سے بڑھ کر ہے؟کیا توہین عدالت کا جرم توہین رسالت کے جرم سے سنگین ہے؟ذرہ سی بات ناگوار گزرنے پر جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وکیل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے جیل بھیجنے کی دھمکی کھلی عدالت میں دی۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ اسی جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے 16 جنوری کو احتشام اللہ خان نامی ایک وکیل کو اپنے سامنے صرف اونچا بولنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے چند منٹوں میں تین ماہ قید کی سزا بھی سنا دی تھی۔جو جج اپنی ذات،اپنی عدالت کے حوالے سے اس قدر حساس ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنی عدالت کی ذرہ سی بھی توہین کے مرتکب شخص کو بغیر صفائی کا موقع پیش کئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتا ہے،،وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے بدترین گستاخوں کو یک جنبش قلم ضمانتیں دے کر جیل کی سلاخوں سے آزاد کروا رہا ہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے دائر توہین عدالت کا درخواست ضمانت گستاخوں کی کے وکیل نے کرتے ہوئے کی Compliance تھا کہ کے بعد
پڑھیں:
کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے کے سبب ازخود چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد رک نہیں جاتا۔
اصول سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بھی واضح ہے کہ اپیل دائر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے، البتہ اگر عدالت چاہے تو کچھ شرائط کیساتھ یا حکم امتناع کے ذریعے چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد روکا جاسکتا ہے۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شکیل احمد اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل تین رکنی بنیچ نے چیف لینڈ کمشنر پنجاب بنام ایڈمنسٹریٹو اوقاف ڈیپارٹمنٹ بہاولپور کیس میں دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت یہ درخواستیں ان ریویژن آرڈرز سے متعلق ہیں جو لاہور ہائیکورٹ نے ایک دہائی قبل جاری کیے تھے، جن میں ریونیو حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس معاملے پر قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کریں، ان واضح ہدایات کے باوجود، ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے کوئی کارروائی نہیں کی، جس کے نتیجے میں بلا جواز اور بلاوجہ کیس میں تاخیر ہوئی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس بات کی تصدیق کی کہ کسی بھی عدالت کی جانب سے کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس اعتراف سے واضح ہوتا ہے کہ عملدرآمد میں ناکامی کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔
سپریم کورٹ یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اس تشویشناک طرزعمل کو اجاگر کیا جائے جس میں ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھا جاتا ہے یا انہیں غیر معینہ مدت تک معطل رکھا جاتا ہے،ریمانڈ کا مطلب تاخیر کا جواز فراہم کرنا نہیں ہوتا، جب اعلیٰ عدالتیں ریمانڈ کی ہدایات جاری کرتی ہیں تو ان پر مخلصانہ اور فوری عملدرآمد لازم ہوتا ہے، اس میں ناکامی تمام حکام پر آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
یہ صرف انفرادی غفلت نہیں بلکہ لازمی عدالتی احکامات سے مستقل انتظامی لاپرواہی کی علامت ہے، جو ایک نظامی ناکامی ہے اور جسے فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس معاملے پر غور کرنے کے لیے عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی ذاتی پیشی طلب کی تو انھوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ صوبائی سطح پر واضح اور جامع پالیسی ہدایات جاری کی جائیں گی، جن کے ذریعے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریمانڈ آرڈرز پر فوری اور بلا تاخیر عملدرآمد کریں۔
عملدرآمد کی نگرانی کی جائیگی اور ان کے دائرہ اختیار میں موجود تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی موجودہ صورتحال کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ صوبے میں تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی تازہ ترین صورتحال، اس حکم کے اجرا کے تین ماہ کے اندر اندر، اس عدالت کے رجسٹرار کو جمع کروائی جائے۔