ٹی ایل پی کے نام پر سیل کیے گئے نجی اسکول کو کھولنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ اسکول کی بندش سے بچے تعلیم سے محروم ہوگئے، اسکول کی بندش آئین کے آرٹیکل دس اے کی خلاف ورزی ہے، اسکول کی بندش قانونی کی نگاہ میں غیر ضروری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک لبیک پاکستان کے نام پر نجی اسکول کو سیل کرنے کے خلاف اسکول انتظامیہ پشاور ہائی کورٹ پہنچ گئی، عدالت نے اسکول کو ڈی سیل کردیا۔ تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، صوبائی حکومت اور دیگر متعلقہ فریقین سے 14 دن کے اندر جواب طلب کرلیا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار چارسدہ عمرزئی حاجی آباد میں ایک نجی اسکول کا پرنسپل ہے، درخواست گزار کے مطابق ان کے اسکول کو فریقین نے ٹی ایل پی سے تعلق کی بنیاد پر سیل کیا، درخواست گزار کے مطابق مذکورہ اسکول میں 1300 بچے زیر تعلیم ہیں، درخواست گزار وکیل کے مطابق اسکول کو بغیر کسی تحریری حکم کے بند کردیا گیا۔
عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ اسکول کی بندش سے بچے تعلیم سے محروم ہوگئے، اسکول کی بندش آئین کے آرٹیکل دس اے کی خلاف ورزی ہے، اسکول کی بندش قانونی کی نگاہ میں غیر ضروری ہے، عدالت نے موجود ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس دیا وہ اسکول کی بندش کی روداد کی تصدیق کریں اور 14 دن کے اندر جواب جمع کرائیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ فریقین اگلی پیشی تک اسکول کو واپس ڈی سیل کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسکول کی بندش درخواست گزار اسکول کو کے مطابق
پڑھیں:
خاتون بازیابی کیس؛ یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور:کاہنہ سے مبینہ اغوا ہونے والی فوزیہ بی بی کی بازیابی کے لیے لاہور ہائیکورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے 15 روز میں تفتیش کی پراگرس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔
دوران سماعت، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل وقاص عمر نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر معاملے کی ایڈشنل آئی جی نے انکوائری کی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی تحویل میں لی گئی فائل سے کچھ نہیں ملا خالی ہے، پولیس کی بری عادت ہے فائل سے کچھ چیزوں کو نکال لیتی ہے۔
چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیے کہ یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں، ایسے غیر سنجیدہ اہلکاروں کو پولیس محکمے میں نہیں ہونا چاہیے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ انکوائری کے بعد تفتیشی کو برطرف کرکے پیکا کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے، پولیس فوزیہ کی بازیابی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لے رہی ہے۔
عدالت نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے فوزیہ کا آئی ڈی کیوں نہ بنوایا؟ وکیل نے بتایا کہ لاعلمی کی وجہ سے درخواست گزار کے تینوں بچوں کے شناختی کارڈز نہیں بنوائے گئے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ فیملی ٹری میں فوزیہ کا نام بھی شامل نہیں ہے، کوئی دستاویزی ثبوت دیں جس سے ثابت ہو سکے فوزیہ آپ کی بیٹی ہے۔ آپ نے بچوں کی تعداد کم کیوں بتائی؟ فوزیہ کو جنات لے گئے یہ پتہ ہے لیکن اتنا نہیں پتہ آپ کو کہ شناختی کارڈ نہیں بنایا، فیملی ٹری میں نام نہیں۔
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ فوزیہ کی ایک تصویر اور بھائی کی شادی کی ویڈیو پولیس کو دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو شادی کی ویڈیو بنانے کا پتہ ہے لیکن شناختی کارڈ کیوں نہ بنوایا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پولیس کا کام خاتون کو بازیاب کرنا ہے وہ کرلے گی، پچھلے دنوں ڈپٹی کمشنر کا کتا گم ہوگیا تھا اس کو ڈھونڈ لیا گیا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب ایسی باتیں نا کریں، میڈیا کے لیے خبر نا بنائے، ایسی باتیں زیب نہیں دیتی۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے حمیداں بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔