شہزادہ ہیری سے معروف برطانوی اخبار کے مالک نے اپنے نیوز گروپ کی جانب سے معافی مانگ لی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی شہزادے ہیری نے ملکی اخبار ’دی سن‘ پر پرائیویسی میں مداخلت پر مقدمہ دائر کیا تھا۔

مقدمے میں شہزادہ ہیری نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اخبار نے نوّے کی دہائی میں میری والدہ لیڈی ڈائنا کی جاسوسی کی اور افواہوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

شہزادہ ہیری نے ہتک عزت، نجی معلومات کی غلط طریقے سے تشہیر، جھوٹی خبریں پھیلانے اور جاسوسی کرکے نجی زندگی میں مداخلت پر ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

جس پر دی سن اخبار کے مالک نے شہزادے کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرلیا اور ہرجانے کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

برطانوی نیوز گروپ کے مالک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 1996 سے 2011 تک ڈیوک آف سسیکس کی نجی زندگی میں سنگین مداخلت کی، جس پر معافی چاہتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ان خبروں سے پرنس ہیری کے تعلقات، دوستی اور خاندان کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس ہے۔

برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق دی سن نیوز کو تصفیے پر جو ہرجانہ شہزادہ ہیری کو ادا کرے گا وہ 12 ملین ڈالرز سے زائد ہوسکتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شہزادہ ہیری

پڑھیں:

بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری

بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔

بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔

صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • عدالتوں سے حکم امتناع ایوان بالا کی کارروائی میں مداخلت ہے، سینیٹ اجلاس میں بحث
  • ’لیڈی ڈیانا کی بیٹی ہوں‘ مالک مکان اور پالتو بلی کو قتل کرنے والی حبیبہ نوید اسپتال منتقل
  • بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
  • شہزادے جارج کی سالگرہ، شہزادی شارلٹ کو بھی اہم ذمہ داری مل گئی
  • برطانوی رکنِ پارلیمان کا اپنے ملک سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ
  • سعودی شہزادہ عبدالرحمان بن عبداللہ کی والدہ انتقال کر گئیں
  • امریکا کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت، ٹرمپ نے اوباما کو ’غدار‘ قرار دے دیا
  • حمائمہ ملک نے مفتی طارق مسعود سے کس بات کی معافی مانگی؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!