نجی زندگی کی جاسوسی پر برطانوی اخبار کی شہزادہ ہیری سے معافی؛ ہرجانہ ادا کرنے پر بھی آمادہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
شہزادہ ہیری سے معروف برطانوی اخبار کے مالک نے اپنے نیوز گروپ کی جانب سے معافی مانگ لی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی شہزادے ہیری نے ملکی اخبار ’دی سن‘ پر پرائیویسی میں مداخلت پر مقدمہ دائر کیا تھا۔
مقدمے میں شہزادہ ہیری نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اخبار نے نوّے کی دہائی میں میری والدہ لیڈی ڈائنا کی جاسوسی کی اور افواہوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
شہزادہ ہیری نے ہتک عزت، نجی معلومات کی غلط طریقے سے تشہیر، جھوٹی خبریں پھیلانے اور جاسوسی کرکے نجی زندگی میں مداخلت پر ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
جس پر دی سن اخبار کے مالک نے شہزادے کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرلیا اور ہرجانے کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
برطانوی نیوز گروپ کے مالک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 1996 سے 2011 تک ڈیوک آف سسیکس کی نجی زندگی میں سنگین مداخلت کی، جس پر معافی چاہتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان خبروں سے پرنس ہیری کے تعلقات، دوستی اور خاندان کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس ہے۔
برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق دی سن نیوز کو تصفیے پر جو ہرجانہ شہزادہ ہیری کو ادا کرے گا وہ 12 ملین ڈالرز سے زائد ہوسکتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شہزادہ ہیری
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کیجانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی ناقابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر وقف بائے یوزر سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی، مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے، یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح واقف کے لئے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے، ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں، ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے، ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔