صحافت سے منسلک کوئی بھی شخص پیکا ایکٹ ترمیمی بل سے متاثر نہیں ہوگا، وزیراطلاعات
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
وفاقی وزیراطلاعات عطاتارڑ نے کہا ہے کہ صحافت سے منسلک کوئی بھی شخص پیکا ایکٹ ترمیمی بل سے متاثر نہیں ہوگا، نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے رولز صحافیوں کی مشاورت سے بنیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کی پریس گیلری میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا پہلے ہی پیمرا کے تحت ریگولیٹڈ ہے، پیمرا کی کونسل آف شکایات ہے، الیکٹرانک میڈیا کی کوئی بھی بات پیمرا کے زمرے میں آتی ہے، الیکٹرانک میڈیا کے رولز اینڈ ریگولیشنز موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ 2025 ترمیمی بل منظور، صحافتی تنظیموں کو کیا اعتراضات ہیں؟
عطاتارڑ نے کہا ہے ڈیجیٹل میڈیا کے اوپر کوئی شخص کسی کو واجب القتل قرار دے، جیسے ایک شخص نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا سر کاٹ کے جو لائے گا، میں اس کو اتنے روپے دوں گا، کسی کے بچے کی کوئی تصویر لگائے، ہتک عزت کرے، ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ آج الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کو تنخواہیں کیوں لیٹ مل رہی ہیں، سنو ٹی وی کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے، میں کوشش کروں گا کہ سنو ٹی وی کے کسی ملازم کو نہ نکالا جائے، حقائق پر بات کرنی چاہیے، پیکا ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر اور پرنٹ میڈیا پر مزید سختی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ 2025 ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا، صحافیوں کا واک آؤٹ
ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے اوپر صحافت کے نام پر بغیر پریس کلب کی ممبرشپ کے، بغیر کسی صحافت کی تنظیم اور بغیر صحافت کے پیشے سے منسلک ہوئے جو لوگ کیمرہ نکال کے اپنے ویوز بڑھاتے ہیں، کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم تو ہوگا جس کو وہ جواب دہ ہوں گے۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ اگر کسی اخبار کے صحافی کے واجبات لیٹ ہیں تو آئی ٹی این ای موجود ہے، وہ آئی ٹی این ای میں جاتا ہے اس کو چیک مل جاتا ہے، آئی ٹی این ای اخبارات کو کہتی ہے کہ واجبات ادا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش، فیک نیوز پر 5 سال کی سزا ہوگی
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے اوپر کیا وجہ ہے کہ آپ کسی کو واجب القتل قرار دیں، کسی پر توہین رسالت کا الزام لگائیں، کہیں کہ کسی کا گھر توڑ دو، آگ لگا دو، کوئی اتھارٹی اس کا نوٹس نہیں لے سکتی، پیکا ایکٹ میں پہلی بار سوشل میڈیا کو ڈیفائنڈ کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا ہے کیا، ہر وہ آن لائن پلیٹ فارم یا ویب ایپلیکیشن جس کے ذریعے انفارمیشن ٹرانسمیٹ کی جاتی ہے، اس کو سوشل میڈیا کے طور پر ڈیفائنڈ کیا گیا ہے۔
عطاتارڑ نے کہا کہ صحافت سے منسلک کوئی بھی شخص پیکا ایکٹ سے متاثر نہیں ہوگا، یہ بل اس لیے لایا گیا ہے کہ جو پورنو گرافی یا ڈیپ فیک ویڈیوز کا مسئلہ ہے، ایف آئی اے کی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ یہ مسئلے حل کرسکے، جو نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی لائی جارہی ہے، اس کے رولز صحافیوں کی مشاورت سے بنائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پارلیمنٹ ہاؤس پیکا ایکٹ عطاتارڑ فیک نیوز وزیراطلاعات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پارلیمنٹ ہاؤس پیکا ایکٹ عطاتارڑ فیک نیوز وزیراطلاعات ڈیجیٹل میڈیا پیکا ایکٹ نے کہا کہ کوئی بھی سے منسلک میڈیا کے
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔