ٹرائل میں تاخیر پر ملزمان کو ضمانت دینے کی حوصلہ افزائی نا کی جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل کسٹڈی پر جیلوں میں قید انڈر ٹرائل ملزمان کی ٹرائل کورٹ میں پیشیاں یقینی بنانے کی ہدایات جاری کر دیں۔
ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے تحریری آرڈر جاری کر دیا۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو عدالتی حکمنامے کی کاپی کریمنل کیسز سننے والی تمام ٹرائل کورٹس کو بھجوانے کی ہدایت کر دی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ ٹرائل میں تاخیر کی بنیاد پر ملزمان کو ضمانت دینے کی پریکٹس کی حوصلہ افزائی نا کی جائے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ پٹیشنر محمد صادق کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈائریکشن دی گئی، ملزمان نے دوبارہ ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کر کے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں فیصلہ تاخیر کا شکار ہے۔
حکم نامے کے مطابق ٹرائل کورٹ کی آرڈر شیٹس کے مطابق ملزم کو 7 سماعتوں پر جیل سے لا کر عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا، حیرت انگیز بات ہے کہ ٹرائل کورٹ نے متعلقہ اتھارٹیز سے ملزم کی عدم پیشی کی وجہ تک نہیں پوچھی، عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ جوڈیشل کسٹڈی کے ملزمان کی حفاظت کو یقینی بنائیں، جیل میں جوڈیشل کسٹڈی کے ملزمان کی خیریت ٹرائل کورٹس کی ذمہ داری ہے۔
عدالتی حکم نامے میں لکھا ہے کہ ملزم کو عدالت پیش نا کرنا ملزم اور پولیس حکام کی ملی بھگت معلوم ہوتی ہے تاکہ ملزم تاخیر کو وجہ بنا کر ضمانت لے سکے، اسلام آباد کی تمام ٹرائل کورٹس کیسز کی سماعت پر ملزمان کی عدالت میں پیشیوں کو یقینی بنائیں، ٹرائل کورٹس ملزمان کی عدم پیشی پر متعلقہ اتھارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کریں یا آرڈر میں ملزم کی عدم پیشی کی وجوہات تحریر کریں۔ ٹرائل میں تاخیر کی بنیاد پر ملزمان کو ضمانت ملنے کی پریکٹس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔
ہائیکورٹ نے پٹشنر محمد صادق کے کیس کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ڈائریکشن پر عمل درآمد نا ہونے کی رپورٹ طلب کر لی۔ 25 ستمبر 2024 کے عدالتی حکمنامے کے مطابق ٹرائل مکمل کیوں نہیں ہوا؟ ٹرائل کورٹ سے 10 دنوں میں رپورٹ طلب کر لی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائی ٹرائل کورٹس ٹرائل کورٹ ہائی کورٹ ملزمان کی کورٹ نے
پڑھیں:
سول کورٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں ضلعی عدالتوں کو بھیجنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں اختلافات
اسلام آباد:سول کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں ضلعی عدالتوں کو بھیجنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا محاذ کھل گیا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے 2 ایڈیشنل ججز کے مقدمات واپس بھیجنے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیے اور انہوں نے ایڈیشنل رجسٹرار اعجاز احمد کو عدالت میں طلب کر لیا۔
ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ 2023 کی فُل کورٹ میٹنگ میں یہ اپیلیں ڈسٹرکٹ کورٹس کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ہم نے تو صرف چیف جسٹس کو نوٹ لکھا تھا جس پر ڈویژن بینچ تشکیل دیا گیا۔ ڈویژن بینچ نے ہائیکورٹ میں زیرالتوا اپیلیں ضلعی عدالتوں کو بھیجنے کا آرڈر کیا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ اُس فُل کورٹ میں مشاورت ہوئی تھی لیکن اپیلیں واپس بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ 2 جونیئر ججوں کا بینچ بنا کر تمام مقدمات واپس ضلعی عدالتوں کو بھیج دیے گئے۔ زیرالتوا اپیلیں ہائیکورٹ کے سننے یا واپس جانے کا فیصلہ فُل کورٹ میں ہونا چاہیے تھا۔جن ججز کے پاس اپیلیں زیرسماعت ہیں ان سے بھی رائے نہیں لی گئی۔
عدالت نے کہا کہ کئی مقدمات 80 فیصد سُنے جا چکے تھے وہ اب اٹھا کر ڈسٹرکٹ کورٹس کو بھیج دیے گئے ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں مقدمات کی دوبارہ سماعت شروع ہو گی سائلین کو مشکلات ہوں گی۔
بعد ازاں عدالت نے مزید معاونت طلب کرتے ہوئے سماعت 8 جولائی تک ملتوی کر دی۔