عصری علوم کے حاملین کو ملازمتیں نہ دے سکنے والے علماء کو روزگار کا جھانسہ دے رہے ہیں:مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
عصری علوم کے حاملین کو ملازمتیں نہ دے سکنے والے علماء کو روزگار کا جھانسہ دے رہے ہیں:مولانا فضل الرحمان WhatsAppFacebookTwitter 0 24 January, 2025 سب نیوز
ڈیرہ اسماعیل خان( محمد ریحان )جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ عصری علوم کے حاملین کو ملازمتیں نہ دے سکنے والے علمائے دین کو قومی دھارے میں لانے کے نام پر انہیں روزگار کا جھانسہ دے رہے ہیں،یہی حربہ ہندوستان پر قابض انگریزوں نے استعمال کیا تھا جس کی مخالفت و مقابلہ علما نے ہی کیا تھا،انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان اسلاف کی امانت ہے راہ حق پر گامزن اس جماعت سے وابستہ رہیں،وہ اجتہادی غلطی بھی کرے تو نقصان کی بات نہیں،انفرادیت ناکام ہو جاتی ہے لیکن اجتماعیت کامیاب رہتی ہے
،ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں جامعہ معارف الشریعہ میں ختم بخاری شریف و تقریب دستاربندی سے خطاب کے دوران کیا ، اس موقع پر جے یوآئی کے صوبائی امیر و سینیٹر مولانا عطا الرحمن ، خیبرپختونخواہ اسمبلی میں جے ویوآئی کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمن ، ضلع سینئر نائب امیر مولانا عبیدالرحمن ، صوبائی سیکرٹر ی جنرل مولانا عطاالحق درویش ،اراکین صوبائی مجلس عاملہ ،مولانا عبدالحسیب حقانی ،مفتی عبید اللہ ،مفتی فضل غفور،مفتی ناصر محمود ،مولانا احمد علی درویش اور اسرار مروت سمیت دیگر موجود تھے،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مملکتی امور پر بات ہو گی تو شورائیت ہو گی ،خلفائے راشدین مشاورت کرتے تھے اسے اجتما عیت کہتے ہیں
،اسی بنیاد پر جمعیت علمائے اسلام قائم کی گئی،انفرادی جدوجہد ناکام ہو جاتی ہے،خلوص نیت کے ساتھ بغیر کسی لالچ کے کام کریں،مشکلات آتی ہیں اور اس راہ میں آسانیاں نہیں ہوتیں،شدت کی بجائے دلیل سے بات کی جائے۔انہوں نے کہا کہ نفس مسئلہ سے عام لوگ بھی واقف ہوتے ہیں لیکن اس کی علت جاننا ضروری ہے اور لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی حکمت بھی ناگزیر ہے۔ان خوبیوں سے آشنا با علم شخض کو عالم ربانی کہتے ہیں، بعد ازاں انہوں نے علمائے کرام کی دستاربندی بھی کی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مولانا فضل
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔