خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر چترال میں صدیوں پرانی ثقافت کے امین کیلاش مذہبی عقیدے کے ماننے والوں کی مجموعی آبادی میں معمولی اضافہ ہورہا ہے لیکن حیران کن طور کیلاش خواتین کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے جو اس برادری کے لیے پریشان کن ہے۔

دنیا کی قدیم ثقافت کی وجہ سے سیاحت کے لیے مشہور کیلاش کی تینوں وادیوں کی ترقی اور بہبود کے لیے قائم ادارہ کیلاش ویلیز ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے کیلاش کی تینوں ویلیز بمبورت، بریر اور ریمبور کی آبادی اور دیگر سہولیات کے حوالے ایک تفصیلی سروے رپورٹ جاری کردی ہے جس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں کیلاش مذہبی تہوار چاؤموس، جہاں نئے سال کی پیش گوئی لومڑی کرتی ہے

’کیلاش آبادی میں اضافہ‘

سروے کے مطابق چترال میں آباد کیلاش مذہبی عقیدہ رکھنے والوں کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ان کی آبادی کم ہورہی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل کیلاش ویلیز ڈیولپمنٹ اتھارٹی مہناج الدین نے وی نیوز کو بتایا کہ پہلی بار سرکاری سطح پر کیلاش ویلیز میں ڈور ٹو ڈور سروے کے ذریعے کیلاش اور مسلم آبادی کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، جس میں کیلاش آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سروے میں مشکلات، مسائل اور دیگر ایشوز کے حوالے سے بھی پوچھا گیا ہے جبکہ ان کے حل اور کیلاش میں ترقی اور بہبود کے لیے روڈ میپ بھی دیا گیا ہے۔

کیلاش آبادی کتنی ہے اور کنتے سالوں میں کتنا اضافہ ہوا؟

حکومتی سروے میں کیلاش کی تینوں وادیوں میں مجموعی آبادی 16321 ہے جس میں کیلاش عقیدے کے ماننے والوں کی تعداد 4109 ہے جبکہ 12312 نفوس پر مشتمل آبادی مسلمانوں کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کیلاش ویلیز میں سال 2007 اور 2022 میں نجی اداروں کی جانب سے سروے ہوئے۔ 2007 کی سروے رپورٹ کے مطابق کیلاش برادری کی آبادی اس وقت 3137 تھی، اور اس تناسب سے 17 سالوں میں کیلاش آبادی میں صرف 972 افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس حساب سے دیکھا جائے تو کیلاش آبادی میں سالانہ 58 افراد کا اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ماہانہ تقریباً پانچ جبکہ 6 دن میں ایک بچہ جنم لیتا ہے۔ کیلاش عقیدے سے تعلق رکھنے والے مذہبی قاضیوں کا ماننا ہے کہ ملک کی آبادی کے تناسب سے کیلاش کی آبادی کم ہورہی ہے۔

احمد کیلاش (فرضی نام) نے کیلاش آبادی اور اس سے جڑے مسائل پر بات کی اور مؤقف اپنایا کہ حقیقت میں آبادی میں کمی ہورہی ہے، کیلاش میں پیدائش کی شرح زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی آبادی اس تناسب میں نہیں ہے۔

’کیلاش مرد زیادہ لڑکیاں کم، شادی میں مشکلات‘

سروے کے مطابق کیلاش کی تینوں وادیوں میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق کیلاش عقیدے کے ماننے والوں کی مجموعی تعداد 4109 ہے، جس میں سے خواتین کی تعداد 1914 ہے، جو مردوں کی نسبت کم ہے۔ کیلاش خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہونے پر کیلاشی بڑے فکرمند ہیں۔

کیلاش عقیدے سے تعلق رکھنے والے رہنما و سوشل ورکر لوک رحمت کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصے سے اس پر کام بھی کررہے ہیں۔ ’ہماری خواتین کم ہورہی ہیں جبکہ مرد زیادہ ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کو شادی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ خواتین کی کمی کا مطلب آپ کا وجود ہی خطرے میں ہے۔ اب بھی کئی نوجوان شادی نہیں کرسکے جبکہ کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی پسند نہ ہونے یا عمر میں واضح فرق کے باجود بھی شادی پر مجبور ہیں۔

چترال پر حکمرانی کرنے والے کیلاشیوں کی آبادی کم ہونے کی وجوہات؟

چترال سے تعلق رکھنے والے اسکالر و ریسرچر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی اور کیلاش رہنما لوک رحمت آبادی کے حوالے سے حکومتی سروے کے اعداد و شمار پر سولات اٹھا رہے ہیں۔

عنایت اللہ فیضی نے وی نیوز کو بتایا کہ انہوں نے کیلاش پر 2013 سے 2017 تک کام کیا اور مسلسل کیلاش ویلیز کا چکر لگاتے تھے۔ ان کے مطابق 2013 سے کیلاش آبادی کا مقامی سطح پر باقاعدہ طور پر سروے ہوتا تھا جس کے مطابق 2017 تک آبادی میں سالانہ کمی آرہی تھی۔ مقامی سروے کا حوالہ دے کر انہوں نے بتایا کہ 2017 تک آبادی سالانہ تقریباً 200 افراد کم ہورہی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ چترال میں پہلی بار 1911 میں مردم شماری ہوئی تھی جس کے مطابق کیلاش عقیدے کے ماننے والوں کی تعداد 13 ہزار کے قریب تھی جو اب کم ہوکر 4 ہزار رہ گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2013 میں یہ تعداد 3800 رہ گئی تھی۔ ان کے مطابق اس وقت شرح اموات بھی زیادہ تھی، جبکہ سرکاری رپورٹ میں 2024 میں کیلاش میں اموات کی تعداد 30 بتائی گئی ہے۔

کیلاش آبادی کم کیوں ہورہی ہے؟

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق کیلاش 15ویں صدی تک چترال میں اکثریت میں تھے اور 1520 میں بھی ان کا حکمران تھا۔ جس کے بعد ان کا زوال شروع ہوگیا۔ انہوں نے آبادی میں کمی کے حوالے سے بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی ہے۔

ان کے مطابق مذہب کی تبدیلی، تعلیمی نظام اور طرز زندگی آبادی میں کمی کی بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کیلاش آبادی زوال پذیری کا شکار ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مذہب تبدیلی بڑا مسئلہ ہے، اس عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد نہ صرف مسلمان ہورہے ہیں بلکہ عیسائیت سمیت دیگر مذاہب کی طرف بھی جارہے ہیں۔ انہوں کیلاش کے لیے الگ اسکولز کا نہ ہونا بھی اس کی وجہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں کیلاشی زبان معدومیت کے خطرے سے دوچار، ‘مذہب چھوڑنے والے زبان سے تعلق بھی ختم کردیتے ہیں’

لوک رحمت بھی ڈاکٹر عنایت اللہ سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ کیلاش تعلیم اور مذہب کے حوالے سے بے خبر رہتے ہیں جو بہت بڑا مسئلہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews خیبرپختونخوا سروے رپورٹ شادی میں مشکلات قدم ثقافت کیلاش آباد کیلاش مذہب لڑکیوں کی تعداد میں کمی لوئر چترال مذہب تبدیلی وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا سروے رپورٹ شادی میں مشکلات قدم ثقافت لڑکیوں کی تعداد میں کمی مذہب تبدیلی وی نیوز عقیدے کے ماننے والوں کی سے تعلق رکھنے والے خواتین کی تعداد رپورٹ کے مطابق کے حوالے سے عنایت اللہ میں مشکلات چترال میں کی آبادی کم ہورہی ہورہی ہے سروے کے کے لیے کی وجہ

پڑھیں:

سندھ میں 28 برس بعد چائلڈ لیبر پر سروے، ہوشرُبا انکشافات سامنے آگئے

انکشاف ہوا ہے کہ 16 لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر میں مبتلا ہیں، جن میں سے نصف سے زائد 10 سے 17 سال کی عمر کے وہ بچے ہیں، جو خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں جہاں طویل اوقات، شدید موسم اور غیر محفوظ آلات ان کا مقدر بن چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبہ سندھ میں چائلڈ لیبر سے متعلق 28 سال بعد ہونے والے جامع سروے میں ہوش رُبا انکشافات سامنے آگئے۔ سندھ چائلڈ لیبر سروے 2022–2024ء کی چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں اب بھی 16 لاکھ سے زائد بچے محنت مشقت جیسے مسائل میں گرفتار ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سروے محکمہ محنت سندھ، یونیسیف اور بیورو آف اسٹیٹکس کے اشتراک سے مکمل کیا گیا، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 16 لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر میں مبتلا ہیں، جن میں سے نصف سے زائد 10 سے 17 سال کی عمر کے وہ بچے ہیں، جو خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں جہاں طویل اوقات، شدید موسم اور غیر محفوظ آلات ان کا مقدر بن چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق محنت کش بچوں کی اسکول حاضری کی شرح صرف 40.6 فیصد ہے، جبکہ وہ بچے جو چائلڈ لیبر کا شکار نہیں، ان کی حاضری 70.5 فیصد ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔

خاص طور پر 14 سے 17 سال کی لڑکیوں میں جو اوسطاً ہفتے میں 13.9 گھنٹے گھریلو کاموں میں مشغول رہتی ہیں اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ان کیلئے مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سروے رپورٹ حکومت سندھ کو پیش کر دی گئی ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ 1996ء کے مقابلے میں صوبے میں چائلڈ لیبر کی مجموعی شرح میں تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے، تاہم اب بھی کئی اضلاع میں صورت حال تشویشناک ہے، جیسے قمبر شہداد کوٹ میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے زیادہ 30.8 فیصد، تھرپارکر میں 29 فیصد، شکارپور میں 20.2 فیصد، اور ٹنڈو محمد خان میں 20.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ کراچی میں سب سے کم 2.38 فیصد ہے۔

ڈی جی محکمہ محنت محمد علی شاہ نے بتایا کہ چائلڈ لیبر غربت سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور غریب گھرانوں میں سے 33.7 فیصد نے کم از کم ایک ایسا بچہ ہونے کی تصدیق کی جو کام پر جاتا ہے، جبکہ 20.1 فیصد محنت کش بچوں میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں، جو کہ غیر محنت کش بچوں کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہیں۔ حکومت کو اس رپورٹ کی روشنی میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ چائلڈ لیبر کے خاتمے اور بچوں کے محفوظ، تعلیم یافتہ اور روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • مسعود پزشکیان کی پاکستان آمد، ملاقاتوں کا شیڈول منظر عام پر آگیا
  • سندھ میں 28 برس بعد چائلڈ لیبر پر سروے، ہوشرُبا انکشافات سامنے آگئے
  • عتیقہ اوڈھو کی شادی خطرے میں ، وجہ کیا؟
  • آبادی اور ماحولیاتی آلودگی
  • پڑھی لکھی شہری لڑکیاں جلد شادی سے کیوں گریزاں ہیں؟
  • مستقبل کے معماروں کو سلام: ہیروزِ پاکستان کو قوم کا خراجِ تحسین
  • ریحام خان اور بشریٰ بی بی سے شادی کرنے والا کبھی لیڈر نہیں ہو سکتا، شبر زیدی
  • برطانیہ میں مسلسل دوسرے برس ’محمد‘ لڑکوں کا سب سے مقبول نام بن گیا
  • خیبرپختونخوا؛سینیٹ کا ضمنی الیکشن، مشال یوسفزئی 86ووٹ لے کر سینیٹر منتخب
  • ڈی این اے نے 40 سالہ شادی کا پول کھول دیا: بچے کسی اور کے نکلے