کیا چیمیئنز ٹرافی سے قبل وارم اپ میچز بھی ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
پاکستان میں ہونے والی آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا آغاز 19 فروری سے ہوگا تاہم مختلف ممالک کی ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی سے قبل پاکستان میں وارم اپ میچز کھیلیں، اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ٹیمیں پہلے سے شیڈول ایونٹس میں مصروف ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، چیمپیئنز ٹرافی سے قبل پاکستان، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں سہ فریقی ٹورنامنٹ کھیلیں گی جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں دبئی میں دوملکی سیریز میں مصروف ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: قذافی اسٹیڈیم لاہور کا نیا روپ، چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کب تک تیاری ممکن؟
چیمپیئنز ٹرافی سے قبل ان تمام ٹیموں کے پاس وارم اپ میچز کھیلنے کا وقت نہیں بچے گا۔ دوسری جانب، انگلینڈ، آسٹریلیا اور سری لنکا جیسی بڑی ٹیموں کے لیے بھی ابھی تک کوئی وارم اپ میچ شیڈول نہیں کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، چیمپیئنز ٹرافی کے لیے اسٹیڈیمز کی تیاریاں بھی ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں جس کے باعث خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مختلف ممالک کی ٹیمیں پاکستان کی کنڈیشنز خصوصاً پچز کو سمجھ نہیں سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی میں کتنے سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے؟ تفصیلات جاری
عام طور پر آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی بڑی کرکٹ ٹیمیں کنڈیشنز اور پچز کو بہت اہمیت دیتی ہیں اور انہی کنڈیشنز کی بنیاد پر کھیل کی حکمت عملی تیار کرتی ہیں۔ چونکہ چیمپیئنز ٹرافی سے قبل وارم اپ میچز کھیلے جانے کے امکانات کم ہیں، لہٰذا اب ان ٹیموں کو اپنے تجربے اور مہارت کی روشنی میں دیگر ٹیموں کا سامنا کرنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آسٹریلیا انڈیا انگلینڈ پاکستان چیمپیئنز ٹرافی وارم اَپ میچز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا سٹریلیا انڈیا انگلینڈ پاکستان چیمپیئنز ٹرافی وارم ا پ میچز چیمپیئنز ٹرافی ٹرافی سے قبل کی ٹیمیں وارم ا کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-3
پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔