Daily Ausaf:
2025-11-05@01:32:32 GMT

سفرِ وقت کا انقلاب

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس موضوع پر ’’سم ویئر ان ٹائم‘‘ 1980 میں بنی جب فلم کی کہانی میں ایک شخص ایک ایسی عورت سے ملنے کے لئے ماضی میں جاتا ہے جسے اس نے صرف ایک تصویر میں دیکھا ہوتا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کردار نے 1980 ء سے 1912 ء تک کا سفر ’’ہائپنوسس‘‘ (Hypnosis) کے ذریعے طے کیا۔ 1978 میں بننے والی ایک فلم میں اداکار کرسٹوفر ریو بھی ’’سپر مین‘‘کے آخری لمحات میں ٹائم ٹریول کر کے اپنی محبوبہ لوئس لین کو زندہ کرتے ہیں۔ ’’دی ٹرمینیٹر‘‘ 1984، ’’ٹرمنیٹر ٹو ججمنٹ ڈے‘‘ 1991، ’’گرانڈ ہوگ ڈے‘‘ 1993، ’’ٹائم کوپ‘‘ 1994، ’’بنیٹویلیو منکیز‘‘1995، ’’بنفریکوئنسی‘‘2000 اور ’’بنیدی بٹرفلائی‘‘ ایفیکٹ 2004 میں بنی۔ روس نے خلا پر دنیا کی پہلی فیچر فلم بنانے میں سبقت لی تھی۔ جبکہ شہرہ آفاق ٹی وی سیریز ’’سٹار ٹریک‘‘ کے کیپٹن کرک بھی ٹائم ٹریول کے ذریعے خلا میں پہنچے تھے۔
ورلڈ سائنس فیسٹیول کے شریک بانی اور کولمبیا یونیورسٹی کے حسابیات اور طبیعات کے پروفیسر برائن گرین کے مطابق ٹائم ٹریول دو طرح کے ہوتے ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ موصوف پروفیسر کا دعوی ہے کہ ٹائم ٹریول کے زریعے انسان کا مستقبل میں پہنچنا یقینی طور پر ممکن ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اور عظیم ترین سائنس دان البرٹ آئنسٹائن نے 100سال پہلے ہمیں وقت میں سفر کرنے کا طریقہ اشارتا بتا دیا تھا جب انہوں نے ثابت کیا تھا کہ اگر آپ خلا میں جاتے ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں اور واپس آتے ہیں تو آپ کی گھڑی دنیا کی گھڑی سے سست رفتاری سے چل رہی ہو گی یعنی جب آپ دنیا میں واپس قدم رکھیں گے تو آپ مستقبل کی دنیا” میں ہوں گے، اور آپ کو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہو گا۔
البرٹ آئنسٹائن نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اگر آپ بہت زیادہ کشش ثقل والی کسی چیز جیسا کہ نیوٹران سٹار” یا “بلیک ہول” کے قریب ہوں گے تو آپ کیلئے وقت انتہائی سست ہو جائے گا جبکہ باقی چیزوں کے لئے وقت کی رفتار وہی رہے گی۔دنیا کے دوسرے عظیم ترین سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے تو اپنی پوری زندگی بلیک ہولز پر تحقیق کرتے ہوئے گزار دی جس کے دعوی جات کی روشنی میں بلیک ہول کے احاطہ کشش یعنی ’’ایونٹ ہوریزون‘‘ (Event Horizon) میں اتنی زیادہ کثافت” (Density) ہوتی ہے کہ تین لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرنے والی روشنی بھی اس کی کشش ثقل کو توڑ کر آگے نہیں نکل سکتی ہے اور وہ بلیک ہول میں گر کر تباہ ہو جاتی ہے۔ ہاکنگ نے تجربات اور اپنی ریاضیاتی مساوات سے دعوی کیا کہ بلیک ہولز میں وقت تھم جاتا ہے اور ان کے اندر ایسے’’ورم ہولز‘‘ (Wormholes) ہوتے ہیں جن کے ذریعے وقت کی دیگر جہتوں میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔
دنیا کا تقریبا ہر طبیعات دان ٹائم ٹریول کے نظریہ کو قبول کرتا ہے۔ اس کے برعکس ٹائم ٹریول کی دوسری قسم یعنی ماضی میں سفر کرنا اگرچہ ایک متنازعہ موضوع ہے مگر یہ بھی ایک مثبت اور تعمیری بحث ہے۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ورم ہولز ماضی میں سفر کرنے کے تصور کو تقویت دیتے ہیں۔ورم ہولز کیا ہیں؟ ان کی نوعیت اور حقیقت کے بارے سب سے پہلے دنیا کو آئنسٹائن ہی نے معلومات فراہم کی تھیں۔ انہوں نے پہلی بار ورم ہولز کو دریافت کیا تھا جن پر بعد میں ہاکنگ نے اپنی سائنسی تحقیق کی بنیاد رکھی۔ ان سائنسی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ورم ہولز خلا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہونے والے پل (Bridge) ہیں۔ یہ ایسی سرنگیں ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں میل طویل سفر کرنے کے لئے ایک’’شارٹ کٹ‘‘ یعنی مختصر راستہ فراہم کرتی ہیں۔البرٹ آئنسٹائن نے ورم ہولز کو سنہ 1935 میں دریافت کر لیا تھا۔ لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ اگر آپ ورم ہول کو شروعاتی دہانے میں تبدیلی کر دیں یعنی ایک دہانے کو بلیک ہول کے پاس کھولیں یا تیز رفتاری سے سفر کروائیں تو اس ورم ہول کے دہانوں پر ہونے والا وقت ایک رفتار سے نہیں چل پائے گا جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ اس ورم ہول کے زریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر نہیں کر پائیں گے، بلکہ آپ ایک وقت سے دوسرے وقت میں پہنچ جائیں گے جو وقت کی مختلف سمتوں اور متوازی (Parallel) یا ملٹی یونیورسز (Multiple Universes) کے بارے تصور ہے جس کو بھرپور انداز میں امریکہ کے طبیعات دان ہگ ایوریٹ Hugh Everett نے سنہ 1957 میں پیش کیا جس پر انہیں ’’نوبل پرائز‘‘(Noble Prize) بھی دیا گیا۔پروفیسر برائن کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ورم ہولز حقیقت ہیں بھی یا نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیا واقعی ان کے زریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر یہ صحیح ہے تو ورم ہولز کے زریعے ٹائم ٹریول ممکن ہے۔میرا خیال ہے کہ سفرِ وقت اس لیئے بھی ممکن ہے کیونکہ ہم اپنے دماغ میں ماضی، حال اور مستقبل کی اشکال بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں اول ہمارے پاس اپنی دماغی سوچ کی تفصیلات ہوں دوم ہم اپنے مادی جسم سے نکلنے پر قادر ہوں۔ یہ ٹائم ٹریول کا ایک ایسا ہی انقلاب ہو گا کہ ہم ایک دن اپنی مرضی سے مختلف کائناتوں میں رہنے یا کم از ان کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ورم ہولز کے زریعے ورم ہول ہول کے کہ اگر

پڑھیں:

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کا دوسرا روز

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کا دوسرا روز ہے جب کہ  کراچی ایکسپو سینٹر میں جاری نمائش میں دنیا بھر سے 44 ممالک کے وفود شرکت کررہے ہیں۔ 

28 بین الاقوامی اور 150 مقامی کمپنیوں سمیت 176 نمائش کنندگان ایونٹ میں شرکت کررہے ہیں، ایونٹ کے دوران شیڈول دو روزہ میری ٹائم کانفرنس کا انعقاد بھی آج سے ہوگیا۔

میری ٹائم کانفرنس کے دوران بحری امور سے متعلق عالمی ماہرین مقالے بھی پیش کریں گے، نمائش میں بردار اسلامی ملک ایران کا اسٹال سب کی توجہ کا مرکز ہے جب کہ  ترکیہ کی جانب سے بھی نمائش میں اسٹال لگایا گیا ہے۔ 

پائمک کے انعقاد کا مقصد بلیو اکانومی کو پروان چڑھانا اور بحری تجارت کو فروغ دینا ہے، پاک بحریہ پائمیک سکینڈ ایڈیشن کی سرگرمیاں جاری ہیں،  وائس چیف آف نیول اسٹاف وائس ایڈمرل راجہ رب نواز نے پائیمک اسٹالز کا دورہ کیا اور مختلف حربی آلات کا جائزہ لیا،انھیں پاکستانی ساختہ جنگی آلات سے متعلق بریفنگ دی گئی۔

وائس چیف آف نیول اسٹاف  راجہ رب نواز نے کہا کہ کل پائمک کا آغاز ہوا بلیو اکانومی میں استحکام لانا اس کا مقصد ہے، اکنامک فائدے لانا اور لوگوں کو اس جناب متوجہ کرنا ایونٹ کا مقصد ہے، ایران، جرمنی عمان اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک شریک ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ایڈیشن کے مقابلے میں اس بار مزید بہتری آئی ہے،  یہ جہد مسلسل ہے،  ہمارا مقصد ہر آنے والے سال پہلے سے بہتری لانا ہے، شپ میکنگ کے شعبے میں بھی بہتری آرہی ہے، اس فورم پر ایک ہی سیکٹر سے وابستہ لوگوں کو آپس میں ملنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری ٹائم افئیر منسٹری کے ساتھ مل کر ہم نے یہ شروع کیا، بی ٹو بی اور بی ٹو جی میٹنگز جاری ہیں، ہمیں بھی بعض اوقات چیلنجز آتے ہیں، نمائش ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے کہ جہاں اس سیکٹر کے لوگ اپنی پراڈکٹ ڈسپلے کرسکتے ہیں۔

وائس چیف نیول اسٹاف، راجہ رب نواز  نے کہا کہ شپ یارڈ کا قیام نہایت ضروری ہے، کراچی شپ یارڈ بہت قدیم ہے یہاں چیلنجز بھی ہیں، دنیا میں بہت بڑے شپ یارڈ ہیں، گوادر میں شپ یارڈ بنانے کا منصوبہ پائپ لائن مین ہے، امید ہے کہ چیلنجز سے نبرد آزما ہوکر بہتری کیطرف جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بڑے شپ یارڈ کی ضرورت ہے پر امید ہیں کہ اس حوالے سے مثبت تبدیلی آئے گی، نئی آنے والی ہنگور سمندری تجارت اور بحری دفاع کو مزید مؤثر بنائے گی، کراچی کا ڈیپ واٹر ٹرمینل بڑے سے بڑے شپ کو لنگر انداز کرسکتا ہے۔

بھارتی مشقوں سےمتعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گردو پیش کےتمام حالات سےبخوبی آگاہ ہیں، صورت حال کا باریک بینی سےمشاہدہ کررہےہیں، کسی بھی غیر معمولی صورت حال سےنبردآزما ہونےکےلیےمکمل تیار ییں، ہم تیار ہیں۔

کمانڈر کراچی وائس ایڈمرل محمد فیصل عباسی نے ایکسپو سینٹر میں مختلف اسٹالز کا دورہ کیا اور میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ  پائمیک نمائش کے ذریعے مختلف ممالک کے درمیان ایک مضبوط تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش ہے، پاکستان نیوی کی صلاحیتوں پر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ معرکہ حق میں نیوی کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، ہماری صلاحیتوں کے سامنے چھ گناہ بڑا دشمن بھی کوئی جارحیت کرنے کی کوشش نہ کرسکا، کے پی ٹی کے مطابق پورٹ کو ڈیجیٹل کیا جا رہا ہے،  پورٹ جتنے زیادہ ہونگے تجارت کو فائدہ ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • 13 آبان، ظلم کے خلاف عوامی مزاحمت اور بیداری کی علامت ہے، دفاع مقدس کا قومی میوزیم
  • جنوبی کوریا کا 728 کھرب کا بجٹ، خودمختار دفاع اور مصنوعی ذہانت میں انقلاب کا اعلان
  • کراچی: پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کا دوسرا روز
  • پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کا دوسرا روز
  • رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ
  • بلیو اکانومی پاکستانی معیشت میں انقلاب برپا کر سکتی ہے، وزیر خزانہ
  • اجتماع عام نوید انقلاب ‘ خواتین ہر اول دستہ بنیں گی‘ساجدہ تنویر
  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے، سراج الحق