(گزشتہ سے پیوستہ)
اس موضوع پر ’’سم ویئر ان ٹائم‘‘ 1980 میں بنی جب فلم کی کہانی میں ایک شخص ایک ایسی عورت سے ملنے کے لئے ماضی میں جاتا ہے جسے اس نے صرف ایک تصویر میں دیکھا ہوتا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کردار نے 1980 ء سے 1912 ء تک کا سفر ’’ہائپنوسس‘‘ (Hypnosis) کے ذریعے طے کیا۔ 1978 میں بننے والی ایک فلم میں اداکار کرسٹوفر ریو بھی ’’سپر مین‘‘کے آخری لمحات میں ٹائم ٹریول کر کے اپنی محبوبہ لوئس لین کو زندہ کرتے ہیں۔ ’’دی ٹرمینیٹر‘‘ 1984، ’’ٹرمنیٹر ٹو ججمنٹ ڈے‘‘ 1991، ’’گرانڈ ہوگ ڈے‘‘ 1993، ’’ٹائم کوپ‘‘ 1994، ’’بنیٹویلیو منکیز‘‘1995، ’’بنفریکوئنسی‘‘2000 اور ’’بنیدی بٹرفلائی‘‘ ایفیکٹ 2004 میں بنی۔ روس نے خلا پر دنیا کی پہلی فیچر فلم بنانے میں سبقت لی تھی۔ جبکہ شہرہ آفاق ٹی وی سیریز ’’سٹار ٹریک‘‘ کے کیپٹن کرک بھی ٹائم ٹریول کے ذریعے خلا میں پہنچے تھے۔
ورلڈ سائنس فیسٹیول کے شریک بانی اور کولمبیا یونیورسٹی کے حسابیات اور طبیعات کے پروفیسر برائن گرین کے مطابق ٹائم ٹریول دو طرح کے ہوتے ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ موصوف پروفیسر کا دعوی ہے کہ ٹائم ٹریول کے زریعے انسان کا مستقبل میں پہنچنا یقینی طور پر ممکن ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اور عظیم ترین سائنس دان البرٹ آئنسٹائن نے 100سال پہلے ہمیں وقت میں سفر کرنے کا طریقہ اشارتا بتا دیا تھا جب انہوں نے ثابت کیا تھا کہ اگر آپ خلا میں جاتے ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں اور واپس آتے ہیں تو آپ کی گھڑی دنیا کی گھڑی سے سست رفتاری سے چل رہی ہو گی یعنی جب آپ دنیا میں واپس قدم رکھیں گے تو آپ مستقبل کی دنیا” میں ہوں گے، اور آپ کو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہو گا۔
البرٹ آئنسٹائن نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اگر آپ بہت زیادہ کشش ثقل والی کسی چیز جیسا کہ نیوٹران سٹار” یا “بلیک ہول” کے قریب ہوں گے تو آپ کیلئے وقت انتہائی سست ہو جائے گا جبکہ باقی چیزوں کے لئے وقت کی رفتار وہی رہے گی۔دنیا کے دوسرے عظیم ترین سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے تو اپنی پوری زندگی بلیک ہولز پر تحقیق کرتے ہوئے گزار دی جس کے دعوی جات کی روشنی میں بلیک ہول کے احاطہ کشش یعنی ’’ایونٹ ہوریزون‘‘ (Event Horizon) میں اتنی زیادہ کثافت” (Density) ہوتی ہے کہ تین لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرنے والی روشنی بھی اس کی کشش ثقل کو توڑ کر آگے نہیں نکل سکتی ہے اور وہ بلیک ہول میں گر کر تباہ ہو جاتی ہے۔ ہاکنگ نے تجربات اور اپنی ریاضیاتی مساوات سے دعوی کیا کہ بلیک ہولز میں وقت تھم جاتا ہے اور ان کے اندر ایسے’’ورم ہولز‘‘ (Wormholes) ہوتے ہیں جن کے ذریعے وقت کی دیگر جہتوں میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔
دنیا کا تقریبا ہر طبیعات دان ٹائم ٹریول کے نظریہ کو قبول کرتا ہے۔ اس کے برعکس ٹائم ٹریول کی دوسری قسم یعنی ماضی میں سفر کرنا اگرچہ ایک متنازعہ موضوع ہے مگر یہ بھی ایک مثبت اور تعمیری بحث ہے۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ورم ہولز ماضی میں سفر کرنے کے تصور کو تقویت دیتے ہیں۔ورم ہولز کیا ہیں؟ ان کی نوعیت اور حقیقت کے بارے سب سے پہلے دنیا کو آئنسٹائن ہی نے معلومات فراہم کی تھیں۔ انہوں نے پہلی بار ورم ہولز کو دریافت کیا تھا جن پر بعد میں ہاکنگ نے اپنی سائنسی تحقیق کی بنیاد رکھی۔ ان سائنسی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ورم ہولز خلا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہونے والے پل (Bridge) ہیں۔ یہ ایسی سرنگیں ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں میل طویل سفر کرنے کے لئے ایک’’شارٹ کٹ‘‘ یعنی مختصر راستہ فراہم کرتی ہیں۔البرٹ آئنسٹائن نے ورم ہولز کو سنہ 1935 میں دریافت کر لیا تھا۔ لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ اگر آپ ورم ہول کو شروعاتی دہانے میں تبدیلی کر دیں یعنی ایک دہانے کو بلیک ہول کے پاس کھولیں یا تیز رفتاری سے سفر کروائیں تو اس ورم ہول کے دہانوں پر ہونے والا وقت ایک رفتار سے نہیں چل پائے گا جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ اس ورم ہول کے زریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر نہیں کر پائیں گے، بلکہ آپ ایک وقت سے دوسرے وقت میں پہنچ جائیں گے جو وقت کی مختلف سمتوں اور متوازی (Parallel) یا ملٹی یونیورسز (Multiple Universes) کے بارے تصور ہے جس کو بھرپور انداز میں امریکہ کے طبیعات دان ہگ ایوریٹ Hugh Everett نے سنہ 1957 میں پیش کیا جس پر انہیں ’’نوبل پرائز‘‘(Noble Prize) بھی دیا گیا۔پروفیسر برائن کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ورم ہولز حقیقت ہیں بھی یا نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیا واقعی ان کے زریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر یہ صحیح ہے تو ورم ہولز کے زریعے ٹائم ٹریول ممکن ہے۔میرا خیال ہے کہ سفرِ وقت اس لیئے بھی ممکن ہے کیونکہ ہم اپنے دماغ میں ماضی، حال اور مستقبل کی اشکال بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں اول ہمارے پاس اپنی دماغی سوچ کی تفصیلات ہوں دوم ہم اپنے مادی جسم سے نکلنے پر قادر ہوں۔ یہ ٹائم ٹریول کا ایک ایسا ہی انقلاب ہو گا کہ ہم ایک دن اپنی مرضی سے مختلف کائناتوں میں رہنے یا کم از ان کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ورم ہولز کے زریعے ورم ہول ہول کے کہ اگر
پڑھیں:
ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-7
جاوید احمد خان
ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔
ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔
دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔
بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔