دالبندین، بلوچ یکجہتی کمیٹی کا اجتماع، موبائل سروسز معطل
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
بی وائی سی رہنماء ماہرنگ بلوچ نے بتایا کہ 25 جنوری 2014 کو خضدار سے اجتماعی قبریں منظرعام پر آئی تھیں۔ اسی دن کی مناسبت سے ’بلوچ نسل کشی یادگاری‘ کے نام سے اجتماع آج منعقد ہو رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین میں اجمتاع کا انعقاد آج کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب انتظامیہ نے انٹرنیٹ سروسز کے بعد موبائل سروسز کو بھی بند کر دیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق جعمرات سے موبائل سروسز بند ہیں۔ دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ انتظامیہ نے ان کے اجتماع کو ناکام بنانے کے لئے یہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ایک اور خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ 25 جنوری 2014 کو ضلع خضدار کے علاقے توتک سے پہلی مرتبہ اجتماعی قبریں منظرعام پر آئی تھیں۔ اسی دن کی مناسبت سے ’بلوچ نسل کشی یادگاری‘ کے نام سے دالبندین میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام اجتماع آج منعقد ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ اجتماعی قبروں کے حوالے سے ماضی میں بدنام زمانہ شفیق مینگل پر الزامات لگے تھے، تاہم آج شفیق مینگل اپنے آپ کو ایک سیاسی شخصیت ظاہر کر رہا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہا ہے
پڑھیں:
سوڈان،خونریز جنگ، والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، اجتماعی قبریں و لاشیں
خرطوم(ویب ڈیسک) سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا، اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زائد افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن دسیوں ہزار اب بھی محصور ہیں۔
جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو “قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام اب بھی جاری ہے۔سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر اور دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔