اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ مقدمات کی بھرمار اور ججز کی کمی کے باعث مصالحتی نظام کو اپنانا ناگزیر ہوچکا
ہے۔ اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 2023ء میں پورے پاکستان میں 17 لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا مگر ہمارے کیسز آج بھی ویسے ہی پڑے ہیں، ہمیں سائلین کے لیے راستہ نکالنا پڑے گا ہمیں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے متبادل طریقے اپنانے پڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت 10 لاکھ لوگوں کے لیے 13 جج ہیں، اس وقت ججز کی تعداد بہت کم ہے اور اس عدالتی نظام کے اپنے مسائل بھی ہیں، زیادہ تر مسائل وکلا کی وجہ سے ہیں اور ہماری وجہ سے بھی ہیں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے‘ ہمارے ہاں ہڑتال سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے مقدمات لٹک جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مصالحتی نظام ہمارے کلچر کے مطابق ہے جو مسائل کو اچھے طریقے سے حل کرسکتا ہے، اس نظام سے معاشرتی مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے، اس نظام کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں، ہم لوگوں کو ٹریننگ کروا رہے ہیں جو احسن طریقے سے مصالحت کروائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں پرانا کلچر چھوڑنا پڑے گا اہم مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے کیونکہ دیگر کیسز کی بھرمار ہے اب سوچنا یہ ہے کہ صرف ایک ہی عدالت کا دروازہ نہیں بلکہ ثالثی اور مصالحتی نظام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے‘ مصالحتی نظام اپنانا اب لازم ہو چکا ہے سائل کے پاس حق ہو کہ پہلے مصالحتی طریقہ اپنائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ مصالحتی نظام کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کے لیے ناگزیر آئینی مرحلہ، 27ویں آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟

پاکستان کی ترقی اور اہم آئینی و انتظامی امور میں بہتری کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کا نفاذ ایک ناگزیر قومی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ مختلف حقائق کی روشنی میں درج ذیل نکات اس ترمیم کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات مل گئے، مگر بلدیاتی حکومتیں 90 فیصد اضلاع میں یا تو ختم کر دی گئیں یا انہیں بااختیار نہیں ہونے دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 140-اے کے باوجود صوبوں نے گزشتہ 15 برسوں میں عوام کو مستقل مقامی حکومتیں فراہم نہیں کیں۔ 27ویں ترمیم اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔

عالمی ماڈلز جیسے جرمنی، ترکی، بھارت اور اٹلی میں آئینی عدالتیں الگ سے موجود ہیں جو پارلیمان کے قانون، فوجی فیصلوں اور سیاسی تنازعات میں صرف آئینی تشریح کرتی ہیں، حکومت نہیں چلاتیں۔

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کے کون سے اختیارات وفاق کو مل سکتے ہیں؟ فیصل واؤڈا نے بتا دیا

پاکستان میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 24 لاکھ سے زائد ہے اور ایک سول کیس کا اوسط فیصلہ 8 سے 10 سال میں آتا ہے۔ ایسے میں ایک آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کے تبادلوں کے شفاف طریقۂ کار سے عدلیہ پر بوجھ کم ہو سکے گا، آئینی تنازعات کے فوری حل کی راہ ہموار ہوگی اور سپریم کورٹ کا بوجھ قریباً 25 فیصد کم ہو سکتا ہے۔

ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے خاتمے کے بعد عدالتوں کا بوجھ 300 فیصد تک بڑھ گیا، جبکہ 70 فیصد مقدمات ایسے ہیں جو موقع پر مجسٹریل اختیارات سے حل ہو سکتے تھے۔

امن و امان، تجاوزات اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی میں صوبائی و انتظامی نظام بے اختیار نظر آتا ہے۔ اس لیے ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے نظام کی بحالی ایک مؤثر قدم ہوگا۔

پاکستان میں آبادی کی شرحِ اضافہ 2.55 فیصد سالانہ ہے، جبکہ ایران میں 1.1 فیصد، بھارت میں 0.9 فیصد اور چین میں صرف 0.03 فیصد ہے۔ اگر آبادی کی منصوبہ بندی وفاقی سطح پر مربوط پالیسی کے تحت نہ کی گئی تو 2040 تک پاکستان کی آبادی 34 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جس سے وسائل پر شدید دباؤ بڑھے گا۔

مزید پڑھیں: مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی

صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آبادی بڑھنے کی رفتار 2.7 فیصد جبکہ شرح خواندگی 55 فیصد سے کم ہے۔ پنجاب میں خواندگی نسبتاً بہتر (66 فیصد) ہے مگر آبادی کے دباؤ کے باعث صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اس لیے قومی نصابِ تعلیم اور آبادی کنٹرول کی پالیسیاں وفاقی سطح پر نافذ ہونا ناگزیر ہیں۔

پاکستان میں سالانہ قریباً 19 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہو رہے ہیں۔ صوبائی کارکردگی میں نمایاں فرق ہے: پنجاب 33 فیصد، سندھ 23 فیصد، خیبر پختونخوا 21 فیصد اور بلوچستان 36 فیصد۔ یہ فرق 18ویں ترمیم کے بعد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا ہے، اس لیے تعلیم کو دوبارہ وفاقی دھارے میں لانا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

ملک میں سرکاری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار سے زائد ہے، مگر ان میں سے نصف سے زیادہ میں بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، بجلی، باتھ روم اور چار دیواری موجود نہیں۔

صوبائی حکومتوں نے تعلیمی بجٹ عمارتوں پر صرف کیا مگر معیارِ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور ٹیکنالوجی کو نظر انداز کیا۔ اس صورتِحال میں وفاقی معیار اور نگرانی ناگزیر ہے۔

مزید پڑھیں: توجہ ترقی پر مرکوز ہے، 27ویں آئینی ترمیم کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں، اسحاق ڈار

دنیا کے 57 مسلم ممالک میں سے 42 میں دفاع، آبادی، تعلیم، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے بنیادی اختیارات وفاق کے پاس ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی اور تعلیم مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دی گئی، جس سے قومی بیانیے، سلامتی اور شناخت میں تضادات پیدا ہوئے۔

این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقم گزشتہ 15 برس میں 10 گنا بڑھ گئی، مگر صوبائی ٹیکس وصولی میں صرف 70 تا 80 فیصد اضافہ ہوا۔ خرچ بڑھنے کے باوجود آمدن میں بہتری نہ آنے سے وفاقی مالیاتی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔

دفاعی بجٹ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، حالانکہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، جبکہ سول اخراجات سود، پنشن، سبسڈیز اور گورننس، مجموعی بجٹ کا 52 فیصد تک لے جاتے ہیں۔ اصل اصلاح انہی شعبوں میں ناگزیر ہے، دفاع میں نہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس قائم کرنے والی ہے؟

بلوچستان کے بجٹ کا 83 فیصد حصہ تنخواہوں، پنشن اور انتظامی اخراجات پر صرف ہوتا ہے، جبکہ ترقیاتی اخراجات بمشکل 17 فیصد رہ جاتے ہیں۔ صوبہ وفاق سے زیادہ فنڈز کا مطالبہ تو کرتا ہے، مگر ٹیکس اصلاحات، ریونیو بڑھانے اور مقامی حکومتوں کے قیام پر توجہ نہیں دیتا۔

یہی عدم توازن دیگر صوبوں میں بھی موجود ہے اور یہی وہ ادارہ جاتی و مالیاتی خلا ہے جسے 27ویں آئینی ترمیم پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم آبادی، دفاع پاکستان صحت، تعلیم صوبے، وفاق ناگزیر آئینی مرحلہ

متعلقہ مضامین

  • کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟
  • کھیل طلبا کی زندگیوں میں نظم و ضبط برقرار رکھتے ہیں: منصور الظفر داؤد
  • مسائل و بحرانوں کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں ہے‘ مولانا عبد الماجد
  • 27ویں ترمیم کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا، پیپلزپارٹی ٹوپی ڈرامہ کررہی ہے، اسد قیصر
  • حکومت عدالتی نظام کو مزید مؤثر اور مضبوط بنانے کے لیے آئینی ترمیم پر غور کر رہی ہے، عطا اللہ تارڑ
  • موجودہ دور میں جدید علوم کا حصول ناگزیر ہو چکا، ملک ڈیجیٹائزیشن کی راہ پر گامزن ہے، اسحاق ڈار
  • پاکستان کے لیے ناگزیر آئینی مرحلہ، 27ویں آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟
  • پشاور ہائیکورٹ کا تاریخی اقدام: ملک کی پہلی ایوننگ عدالت ایبٹ آباد میں قائم
  • سندھ کے مسائل اجتماع عام میں پیش کریں گے،کاشف سعید
  • کراچی میں ٹریکس نظام کا ’آزمائش کے بغیر‘ نفاذ، پہلی غلطی پر معافی کیسے ملے گی؟