اوچ شریف: زمین کے تنازع پر خاتون پر بہیمانہ حملہ، ناک اور ہونٹ کاٹ دیے گئے
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
اوچ شریف کے علاقے محلہ شمیم آباد میں خاتون پر انسانیت سوز حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں خاتون کا ناک اور ہونٹ کاٹ دیے گئے۔
اسپتال ذرائع کے مطابق متاثرہ خاتون کے جسم پر دیگر زخموں کے نشانات بھی پائے گئے ہیں جن میں کان کاٹنے کی کوشش کے دوران لگنے والے زخم شامل ہیں جبکہ خاتون کو فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
متاثرہ خاتون نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کا شوہر چھ سال قبل وفات پا گیا تھا اور ان کے تین بچے زندہ ہیں۔ ان کے مرحوم شوہر کے نام ایک مربعہ زمین ہے جسے ملزمان زبردستی اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ خاتون کے مطابق زمین دینے سے انکار پر ملزمان نے ان پر جان لیوا حملہ کیا۔
پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور مقدمے میں نامزد تین ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں اور جلد ہی انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غیرت کے نام پر بلوچستان میں قتل خاتون کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان، ملزمان کی رہائی کا مطالبہ
غیرت کے نام پر بلوچستان میں فائرنگ کرکے قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، معاملے میں گرفتار ملزمان کو رہا کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے اپنے جاری مبینہ بیان میں کہا کہ میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں، میں اس قرآن پاک کو سامنے رکھ کر سچ بول رہی ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی، وہ کوئی بچی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے۔ دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہے۔ اس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے۔ پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے۔ اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے، جس کی عمر 6 سال ہے۔
والدہ نے کہا کہ کیا ایک بلوچ کا ضمیر یہ گوارا کرے گا کہ اتنے بچوں کی ماں کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے؟ بے شک، ہم نے انہیں قتل کیا، یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تم ہمارے گھروں پر چھاپے بھیجتے ہو، ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم نے جو بھی کیا، غیرت کے تحت کیا، کوئی گناہ نہیں کیا۔ میری بیٹی بانو اور احسان اللہ پڑوسی تھے۔
بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ 25 دن بعد وہ واپس آ گئی۔ تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا۔ مگر احسان اللہ باز نہیں آیا، وہ ہمیں ویڈیوز بھیجتا تھا۔ ٹک ٹاک پر ہاتھ پر گولی رکھ کر کہتا تھا: ’جو مجھ سے لڑنے آئے، وہ شیر کا دل رکھ کر آئے۔‘ وہ ہمیں دھمکیاں دیتا تھا۔
والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے کی تصویر پر کراس کا نشان لگا کر کہتا تھا: ’میں اسے مار دوں گا۔‘ اتنی رسوائی اور بے غیرتی ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے جو بھی کیا، اچھا کیا۔ اس قرآن پر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں قتل کرنا ہمارا حق تھا۔