پختونخوا میں اکھاڑ پچھاڑ،پی ٹی آئی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں سے بے چینی
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور کے بعد پارٹی اور صوبائی حکومت میں بڑی تبدیلیاں کرنے کا امکان ہے ۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں بڑی تبدیلیوں کی لہر چل پڑی ہے اور ذرائع نے بتایا کہ خیبرپختونخوامیں پی ٹی آئی اورصوبائی حکومت میں بڑی تبدیلیوں کاامکان ہے ۔انہوں نے کہا کہ کارکنان کو ہدایت کی گئی ہے کہ 8 فروی پر فوکس ہے اور اس کے لیے تیاری کرلیں اور نئے صوبائی صدرجنیداکبر نے صوبائی سطح پر پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں سے ٹیلی فونک رابطے بھی کیے ہیں۔پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ پارٹی میں قربانیاں دینے والے اہم رہنماؤں کو ذمہ داری سونپنے کافیصلہ کرلیا گیا ہے کیونکہ 9 مئی کے بعد قربانیاں دینے والے کئی اہم رہنما پس منظر میں چلے گئے ہیں۔مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ پارٹی صدارت کے بعد صوبائی کابینہ میں بھی بہت جلد تبدیلیاں متوقع ہیں، کابینہ میں قلم دانوں کی تبدیلی کے علاوہ نئے لوگوں کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔پی ٹی آئی ذرائع نے مزید بتایا کہ گڈگورننس کمیٹی کی وزرا سے متعلق رپورٹ پارٹی کے نئے صدرجنید اکبر کو دیے جانے کا امکان ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمٰن کے غیر فعال مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے
مولانا فضل الرحمٰن—فائل فوٹوجمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے غیر فعال متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے متحدہ مجلسِ عمل کے رہنماؤں کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کر لیا۔
علامہ سید ساجد علی نقوی وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پہنچ گئے، علامہ عارف واحدی سمیت دیگر رہنما وفد میں شامل تھے۔
سر براہ جے یو آئی نے کہا کہ لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے علامہ ساجد نقوی سمیت ایم ایم اے کی سابقہ قیادت کو مدعو کیا تھا، یہ رابطے غیر فعال ایم ایم اے کو پھر سیاسی میدان میں اتارنے کی کاوشوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے سربراہ جمعیتِ اہلحدیث حافظ عبد الکریم اور مولانا اویس نورانی سے بھی ٹیلیفونک رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی طرف سے تاحال جماعتِ اسلامی کو مدعو نہیں کیا گیا، متحدہ مجلسِ عمل کی فعالیت، غیر فعالیت کے اسباب سمیت دیگر امور زیرِ غور آئیں گے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں مجموعی سیاسی صورتِ حال سمیت غزہ اور خطےکی صورتِ حال بھی زیرِ غور آئے گی۔