امریکی انتظامیہ میں مزید بھارتیوں کی شمولیت، پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھنے کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ٹرمپ انتظامیہ کی اہم عہدوں پر تین بھارتی نژاد امریکیوں کی نامزدگی کی تصدیق کے بعد ’سموسا کاکس‘ امریکی کانگریس میں اپنی بڑھتی نمائندگی کا جشن منا رہا ہے جبکہ امریکی انتظامیہ میں مزید بھارتیوں کی شمولیت سے پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں بھارتی نژاد امریکی قانون سازوں کے گروپ کو عرف عام میں ’سموسا کاکس‘ کہا جاتا ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں امریکی ایوان نمائندگان میں ریکارڈ 6 بھارتی نژاد امریکیوں کی حلف برداری اور حالیہ نامزدگیوں سے امریکی سیاست میں بھارتی کمیونٹی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
45 لاکھ ارکان کے ساتھ تارکین وطن نے امریکی معیشت اور شعبہ تعلیم میں اپنی جگہ مستحکم کرلی ہے، اور اب امریکی سیاست میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں۔
فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) میں کاش پٹیل کی نامزدگی سے لے کر وائٹ ہاؤس میں اہم عہدیداروں کی تعیناتی تک، صدر ڈونلڈ ٹرمپ تاحال نصف درجن بھارتی نژاد امریکیوں کو اہم عہدوں پر نامزد کر چکے ہیں۔
رکی گل کو قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے سینئر ڈائریکٹر نامزد کیا گیا ہے، کُش دیسائی نے وائٹ ہاؤس میں ڈپٹی پریس سیکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، جب کہ سوربھ شرما صدارتی دفتر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
دوسری جانب نئی کانگریس نے امی بیرا (کیلیفورنیا)، سہاش سبرامنیم (ورجینیا)، پرامیلا جے پال (واشنگٹن)، رو کھنہ (کیلیفورنیا)، شری تھانیدار (مشی گن) اور راجا کرشنامورتی (الینوائے) کو خوش آمدید کہا ہے۔
روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ منسلک بھارتی نژاد امریکی اب تیزی سے ری پبلکنز کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ تارکین وطن کے دولتمند اور قدامت پسند طبقات میں ٹرمپ کی ٹیکسز میں کٹوتی اور ڈیریگولیشن کی حمایت کرنے والی معاشی پالیسیوں کو پسند کیا جا رہا ہے، جب کہ خاندان، تعلیم اور قوم پرستی جیسی اقدار بھی ٹرمپ کے پیغام سے مطابقت رکھتی ہیں۔
نکی ہیلی اور وویک راماسوامی جیسی ہائی پروفائل ری پبلکن شخصیات نے پارٹی کے اندر بھارتی نژاد امریکیوں کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے، جس سے سیاسی وفاداریوں کے ازسرنو جائزے کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
امریکی اسٹریٹجک پالیسی میں بھارت کے وسیع ہوتے کردار، امریکا اور بھارت کے درمیان گہرے ہوتے تعلقات کے پاکستان پر اہم اثرات مرتب ہوں گے، خاص طور پر ’چین مخالف‘ کواڈ الائنس اور بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون جیسے اقدامات کے سبب پاکستان پر اپنی سفارتی حکمت عملی از سر نو ترتیب دینے کے حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکا اور بھارت کے مضبوط ہوتے تعلقات کے پیش نظر مبصرین نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی جغرافیائی سیاسی اہمیت، خاص طور پر افغانستان اور جنوبی ایشیا میں اہم کردار اثر انداز ہوسکتا ہے۔
تاہم، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسلام آباد، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) میں اپنی اہم پوزیشن اور خلیج فارس سے اپنی قرابت سے فائدہ اٹھا کر امریکی پالیسی ساز حلقوں میں اپنی اہمیت برقرار رکھ سکتا ہے، بشرطیکہ وہ ماہر سفارت کاری کے ساتھ بدلتے ہوئے منظر نامے پر قابو پالے۔
فارن پالیسی میگزین کے لیے لکھتے ہوئے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے خبردار کیا ہے کہ ’سیاست میں بھارتی نژاد امریکیوں کا عروج نہ صرف داخلی پالیسی سازی میں ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے بیانیے کو تشکیل دینے کی ان کی صلاحیت کی بھی عکاسی کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کے لیے یہ تبدیلی واشنگٹن میں اپنے سفارتی تعلقات کو ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے، کیونکہ بھارتی نژاد امریکی سیاسی منظرنامے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
واشنگٹن میں اسٹمسن سینٹر کی ایک اور رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کی نئی کابینہ ’امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لے گی کیونکہ اس میں بہت سے ایسے عہدیدار شامل ہوں گے جو چین کے عروج کو روکنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو خطرہ قرار دیا ہے۔‘
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان پر میں اپنی رہے ہیں
پڑھیں:
پرنس جارج کی بورڈنگ اسکول منتقلی کے فیصلے پر کیٹ مڈلٹن شدید ذہنی دباؤ کا شکار
پرنس ولیم کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن اپنے بڑے بیٹے پرنس جارج کی بورڈنگ اسکول منتقلی کے فیصلے پر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
’ریڈار‘ ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے ایک شاہی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ’کیٹ اس بات پر دل شکستہ ہیں کہ پرنس جارج کو ایک اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ اسکول میں بھیجا جارہا ہے جو کئی میل دور واقع ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: شہزادے جارج کی سالگرہ، شہزادی شارلٹ کو بھی اہم ذمہ داری مل گئی
کیٹ مڈلٹن جو حال ہی میں پرنس جارج کی 12ویں سالگرہ منا چکی ہیں، اپنے بیٹے کو خود سے دور بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں، وہ چاہتی تھیں کہ جارج ان کے قریب رہے اور وہ اس کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’کیٹ مڈلٹن واقعی غمزدہ اور پریشان ہیں، وہ اپنے ننھے بیٹے کو کسی ایسے مقام پر نہیں بھیجنا چاہتیں جو ان کے گھر ایڈیلیڈ کاٹیج، وِنڈسر سے بہت دور ہو۔‘
رپورٹ کے مطابق پرنس جارج کو ستمبر 2026 میں ایک ایلیٹ بورڈنگ اسکول میں داخل کیا جانا ہے، جس کے بعد ان کی مستقل غیر موجودگی کیٹ کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر ڈال سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پرنس ہیری اور میگھن مارکل کی راہیں جدا ہونے والی ہیں؟
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ’کیٹ، جو گزشتہ برس کینسر کی تشخیص کے بعد بڑی آزمائش سے گزر چکی ہیں، اب اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتی ہیں۔ لیکن جارج کی روانگی کے بعد انہیں یہ موقع میسر نہیں آئے گا، جس سے وہ مطمئن نہیں ہوں گی۔‘
یاد رہے کہ کیٹ مڈلٹن نے حال ہی میں 9 ماہ تک جاری رہنے والی احتیاطی کیموتھراپی مکمل کی ہے اور اس وقت بیماری کے ’ری میشن‘ مرحلے میں ہیں، تاہم پرنس جارج کی ممکنہ جدائی نے ان کی ذہنی کیفیت کو پھر سے متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news شہزادہ جارج شہزادی کیٹ مڈلٹن ویلز