بھارت اور انڈونیشیا کے درمیان "برہموس میزائل معاہدہ" تکمیل کے نزدیک
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
برہموس ایئرواسپیس کے ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق انڈونیشیائی وفد کو برہموس میزائل سسٹم کی طاقت اور صلاحیتوں کے بارے میں تفصیلی جانکاری دی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور انڈونیشیا کے درمیان 450 ملین ڈالر کی "برہموس سپرسونک کروز میزائل" ڈیل فائنل ہونے کے بہت قریب ہے۔ 26 جنوری کو انڈونیشیا کے ایک اعلیٰ سطحی دفاعی وفد نے ہندوستان کے برہموس میزائل سسٹم کی صلاحیتوں پر پریزنٹیشن دیکھا۔ یہ مجوزہ معاہدہ انڈونیشیا کو برہموس میزائل خریدنے والا دوسرا آسیان ملک بنائے گا۔ اس سے قبل فلپائن نے برہموس میزائل سسٹم خریدا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈونیشیائی بحریہ چیف محمد علی کی قیادت میں ایک نمائندہ وفد ہندوستان کے برہموس ایئرواسپیس ہیڈکوارٹر پہنچا جہاں انہوں نے برہموس کے سی ای او جیہ تیرتھ آر جوشی اور دیگر سینئر افسران سے ملاقات کی۔
برہموس ایئرواسپیس کے ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق انڈونیشیائی وفد کو برہموس میزائل سسٹم کی طاقت اور صلاحیتوں کے بارے میں تفصیلی جانکاری دی گئی۔ اس درمیان دونوں فریقین نے ڈیفنس اور اسٹریٹجی کے شعبہ میں تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اپنے نظریات بھی سامنے رکھے۔ واضح رہے کہ برہموس میزائل کی رینج 290 کلومیٹر ہے اور یہ بھارت کی مسلح افواج کی ریڑھ بن چکی ہے۔ یہ معاہدہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اور انڈونیشیائی صدر پرابووو سبیانتو کے درمیان ہوئی میٹنگ کا اہم موضوع رہا ہے۔ پرابووو سبیانتو نے بھارت کی یوم جمہوریہ تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
غزہ معاہدہ: اسحاق ڈار اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کیلئے آج استنبول جائینگے
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار ترک وزیر خارجہ کی دعوت پر (آج) پیر کو ایک روزہ دورے پر استنبول جائیں گے۔ جہاں وہ عرب- اسلامی وزرائے خارجہ کے رابطہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اتوار کو دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق استنبول اجلاس کے دوران پاکستان جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد، مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بالخصوص غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فلسطینی عوام کو بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دے گا۔ پاکستان اس بات کو بھی دہرائے گا کہ تمام فریقوں کو مل کر ایک آزاد، قابلِ عمل اور جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیز کرنی چاہئیں، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، جو 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جو اقوامِ متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور عرب امن منصوبے کے مطابق ہو۔