اخبارات میں تبدیلی نام اور تبدیلی پتا کے چھوٹے چھوٹے اشتہارات تو آپ نے دیکھے اور پڑھے بھی ہوں گے۔ کبھی تو ان کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے گھر یا دفتر کا ایڈریس تبدیل ہوجانے پر اشتہار کے ذریعے آگاہی دینا قانونی اور کاروباری ضرورت ہوتا ہے، نام تبدیلی کبھی اس لیے ہوتی ہے کہ واقعی نام تبدیل کرنا ’’مجبوری‘‘ بن جاتا ہے، ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا اور پیش کیے گئے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ ترمیمی بل 2025ء میں کہا گیا ہے کہ نئی شق 1 اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی۔ اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا، اتھارٹی کے ایکس آفیشو اراکین ہوں گے۔ حکومت نے بل پیش کرنے کی وجہ بھی بتائی۔
ترمیمی بل کے مطابق فیک نیوز پر پیکا ایکٹ کے تحت 3 سال کی سزا دی جاسکے گی، غیرقانونی مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد اور جعلی یا جھوٹی رپورٹس شامل ہوں گی، غیرقانونی مواد میں آئینی اداروں بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف مواد شامل ہوگا۔ یہ بل حکومت کی ضرورت پوری کرسکے گا یا نہیں۔ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، بس تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کا محاورہ سامنے رکھ ہم بھی انتظار میں ہیں اس قانون کا حکومت کو کیا فائدہ ہوگا۔ سادہ الفاظ میں اس قانون کے بارے میں بات کی جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے اب اگر کسی نے کسی دوسرے کے بارے جھوٹ لکھا یا بولا‘ بہتان تراشی کی تو قانون حرکت میں آجائے گا۔ یہ سب کچھ درست‘ ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ کچھ لوگوں نے مذاق ہی بنالیا تھا، جو منہ میں آئے کہہ رہے تھے‘ یہاں تک تو قانون درست، تاہم ایک بات ضرور سمجھ میں آنی چاہیے… اور یہاں تک بات درست بھی ہے لیکن حکومت یہ تو بتا دے کہ اب فارم 47 کی بات ہوگی یا نہیں ویسے تو اگر کسی بھی شخص کے بارے میں فارم 47 کہا اور بولا جائے تو سب کچھ واضح ہوجاتا ہے مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی، بس یہ معلوم کرنا تھا کہ اب کسی نے بھی فارم 47 کا ذکر چھیڑا تو اسے سزا ہوگی یا نہیں ہوگی؟ بل میں یہی کہا گیا ہے کہ غیرقانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیرشائستگی، توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد بھی شامل ہوگا اور غیرقانونی مواد میں کسی جرم پر اکسانا شامل ہوگا۔
آج کل تو اگر حکومت کی جانب اشارہ کرکے فارم 47 بولا جائے تو حکومت اشتعال میں آجاتی ہے یہ بھی پوچھنا تھا کہ کسی کو اشتعال دلانا بھی اسی زمرے میں آئے گا؟ پوچھنا اس لیے ہے کہ احتیاط لازم ہے، پہلے حکومت اپوزیشن کو کنٹرول کیا کرتی تھی، اب میڈیا بھی کنٹرول کرنا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے کوئی علم نہیں، کسی بھی حکومت سے اگر اس کی وجہ معلوم کی جائے تو جواب یہی ملتا ہے کہ میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے ہی حکومت کی شدید مخالفت کی جاتی ہے، اب سمجھ میں آئی کہ حکومت کی مخالفت نہیں کرنی، سب اچھا کی رپورٹ دینی ہے۔ شہباز حکومت، بہت ہی اچھا کام کر رہی ہے بہتر ہوتا کہ یہ حکومت اس بات کی بھی وضاحت کردیتی کہ اگر کوئی سابق نگران وزیر اعظم یہ کہے کہ ’’اگر زیادہ باتیں کیں تو فارم 47 کی حقیقت سامنے لے آئوں گا‘‘ یہ بھی لفظ لکھنے ہیں یا نہیں۔ چونکہ احتیاط لازم ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پہلے تولا جائے پھر بولا جائے۔ پہلے سوچا جائے اور پھر لکھا جائے، حکومت یہ قانون بنا چکی ہے اس میں ایک بات کی اپنی ایک اہمیت ہے وہ ہے آئین اور آئین شہریوں پر کیا پابندی لگاتا ہے اور کس کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیا تحفظ فراہم کرتا ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں کرے گا نہ کرنا چاہیے۔ اسمبلی میں پیش کیے گئے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ ترمیمی بل 2025ء میں کہا گیا ہے کہ نئی شق 1 اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی۔ اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا، اتھارٹی کے ایکس آفیشو اراکین ہوں گے۔ اب ملک میں یہی قانون ہوگا اور یہ نافذ ہوچکا ہے۔ گویا نام کی تبدیلی کا اشتہار چھپ چکا ہے۔ کبھی بھول کر فارم 47 کا کوئی ذکر نہ کرے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: غیرقانونی مواد حکومت کی جائے تو فارم 47
پڑھیں:
یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ پنجاب کسی ایک جماعت کی جاگیر ہے، شرجیل میمن
یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ پنجاب کسی ایک جماعت کی جاگیر ہے، شرجیل میمن WhatsAppFacebookTwitter 0 11 June, 2025 سب نیوز
لاہور (سب نیوز )سندھ کے سینئر وزیر اور وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن نے پنجاب کی صوبائی حکومت کے رویے کو متکبرانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ پنجاب کسی ایک جماعت کی جاگیر ہے۔سندھ کے سینئر وزیرشرجیل انعام میمن نے کہا کہ موجودہ حکومت پنجاب کا رویہ متکبرانہ اور سیاسی حق تلفیوں پر مبنی ہے، پنجاب کی حکومت نفرت اور تقسیم در تقسیم کی سیاست کو ہوا دینے لگی ہے، جو افسوس ناک امر ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، بلدیاتی اداروں کی بات کی تو کیا غلط کہا؟ بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ آئین کے خلاف ہے یا پھر پنجاب میں عوام کو ان کا بنیادی حق دلانا جرم ہے۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک وفاقی جماعت ہے اور ہم صرف سندھ تک محدود نہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت، مقامی حکومتوں اورعوامی نمائندگی کی بات کی ہے، پنجاب میں بلدیاتی ادارے فعال نہیں، نچلی سطح پر کوئی جواب دہ نظام موجود نہیں تو ہم خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہماری بھرپور سیاسی موجودگی ہے، ہمارے کارکن آج بھی گلی محلوں میں عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، پنجاب میں بلدیاتی نظام کی بحالی، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی عوام کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی صرف بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کرتی رہے گی اور ہم پنجاب کے عوام کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتے، مسلم لیگ (ن) پنجاب کے مینڈیٹ کی داعی ہے تو بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرواتی ہے۔شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بلدیاتی ادارے آئین میں موجود ہیں، اگر حکومت پنجاب بلدیاتی اداروں کو نہیں مانتی تو آئین کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے، ملک کا بڑا صوبہ بلدیاتی اداروں کے بجائے کمشنری نظام کے تحت معاملات چلائے تو افسوس ناک عمل اور جمہوریت کے منافی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم کل متحدہ عرب امارات کا سرکاری دورہ کریں گے وزیراعظم کل متحدہ عرب امارات کا سرکاری دورہ کریں گے بجٹ : ملٹری پنشن کی مد میں 66 ارب، سویلین پنشن کے بجٹ میں 9 ارب روپے کا اضافہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس ، وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی بھاری بھرکم تنخواہوں پر وزیر خزانہ کا کیا موقف ہے؟ عیدالاضحی ،سی ڈی اے ورکرز کے اعزاز میں تقریب،وزیر داخلہ کی شرکت وزارت داخلہ کے تمام ذیلی اداروں کے مابین باہمی تعاون بڑھانے کا فیصلہ امن کے لیے امریکا کو انڈیا کو کان سے پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لائے، بلاول بھٹوCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم