سندھ اسمبلی قائمہ کمیٹی نے وائس چانسلرز تعیناتی کے قوانین میں ترمیم کی منظوری دیدی
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
کراچی:
سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے جامعات کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے قوانین میں ترمیم کی منظوری دیدی۔
قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ڈاکٹر سکندر شورو کی صدارت میں ہوا، جس میں وزیر تعلیم سردار شاہ، وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار ، جمیل احمد سومرو، صابر قائم خانی، محمد فاروق، محمد ریحان، ماروی فصیح، شازیہ کریم، شوکت شیراز، عروبہ راشد ربانی، ملیحہ منظور، یوسف بلوچ، روما مشتاق مٹو اور سیکرٹری یویورسٹیز نے شرکت کی۔
قائمہ کمیٹی نے سندھ کی یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے قوانین میں ترامیم کے معاملے پر قائمہ کمیٹی نے حکومتی ترامیم کی تجاویز کی منظوری دیدی ۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ یونیورسٹیز ترمیمی بل دوبارہ اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اب ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ہولڈر افراد کو وی سی لگایا جا سکتا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے کیڈر افسران کے ساتھ اہلیت کے حامل سول سوسائٹی اور دانشوروں کو بھی وی سی لگانے کی تجویز دی ہے۔ اپوزیشن کو پہلے بل پر اعتماد میں لیا تھا لیکن آج قائمہ کمیٹی میں اپوزیشن اراکین نے پتا نہیں کیوں ترامیم کی مخالفت کی۔
بعد ازاں ایم کیو ایم کے رکن قائمہ کمیٹی صابر قائمخانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے بل کی بھرپور مخالفت کی ہے۔ قائمہ کمیٹی میں حکومتی اکثریت کے باعث ترامیم کی منظوری دیدی گئی ہے۔ سندھ حکومت صوبے میں اکیڈمیا کو تباہ کر رہی ہے۔
دریں اثنا جماعت اسلامی کے رکن کمیٹی محمد فاروق نے کہا کہ میں قائمہ کمیٹی کا رُکن نہیں، ترامیم کیخلاف اسمبلی میں تجاویز پیش کیں اس حیثیت میں اجلاس میں شریک ہوا۔ قائمہ کمیٹی میں ایم کیو ایم کی طرف سے صابر قائمخانی کے علاوہ دیگر 2 اراکین شامل نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج ایم کیو ایم کے اراکین قائمہ کمیٹی کے اجلاس سے غائب کیوں تھے، مخالفت کیوں نہیں کی۔قائمہ کمیٹی نے ترمیمی بل میں کیڈر افسران کے ساتھ سول سوسائٹی اور دانشوروں کو بھی وی سی لگانے کی سفارش کر دی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے فیصلے کو جماعت اسلامی کی طرف سے رد کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قائمہ کمیٹی نے کی منظوری دیدی ترامیم کی ایم کی
پڑھیں:
وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: سپیکر پنجاب اسمبلی
لاہور (خصوصی نامہ نگار) سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، مقامی حکومتوں کے تحفظ ، بااختیار بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے، مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ منگل کے روز صوبائی اسمبلی پنجاب نے ایک متفقہ قرارداد پاس کی، ایسی قرارداد جس میں سیاسی اورآئینی پیچیدگیاں ہوں اس کا متفقہ طور پر منظور ہونا اہمیت کی بات ہے، اپوزیشن کے 35اراکین نے متن میں حصہ لیا۔ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ میں پوری ذمہ داری سے بات کررہا ہوں، مقامی حکومتوں کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، مقامی حکومتوں کے ایک درجن کے قریب قوانین سے گزرے ہیں، کوئی بھی سیاسی حکومت ہو لیکن مقامی حکومتوں کا تحفظ، انتخابات کا وقت طے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل کہتا ہے صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، کچھ مسائل اٹھارہویں ترمیم نے بھی حل کیے، جو مسائل درپیش ا?تے رہے ان کا ذکر کررہا ہوں، قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسی ترمیم ہوجو لوکل گورنمنٹ کو تحفظ دے۔ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی پنجاب آئین میں تبدیلی نہیں کرسکتی، یہ پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، لازمی قراردیا جائے کہ مقررہ مدت میں انتخابات ہوں، ہم کہتے ہیں کہ آئینی اورانتظامی اختیارات گراس روٹ تک پہنچنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ سیاسی سہولت کے تحت سیاسی جماعت ایسا نہ کرسکے کہ مقامی حکومت کی مدت کم کردی جائے، تقریباً ایک صدی سے معاملات طے نہیں پائے جاسکے، پنجاب کی 77سالہ تاریخ اٹھاؤں تو 50سال مقامی حکومتوں کا وجود نہیں جوبہت بڑی الارمنگ بات ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مقامی حکومتوں پر بات ضروری ہے، بات چیت کا آغاز کرنے پر معزز اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اراکین کی جانب سے آنے والی آئینی وقانونی تجاویز پر تحسین پیش کرتا ہوں، توقع کرتا ہوں وزیر قانون، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اوردیگر جماعتیں اس کو اہمیت دیں کی۔سپیکر پنجاب اسمبلی نے بتایا کہ تمام جماعتوں کے نمائندوں نے یہ معاملہ پنجاب اسمبلی سے وفاق کو بھیجا ہے، توقع ہے اس کو اہمیت دی جائے گی، لوکل گورنمنٹ کے ساتھ گزشتہ صورتحال سے آگاہ کیا، سپیڈ بریکر آتے رہے، یہ ٹوٹتی رہیں۔یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم سے ڈاکٹر خالد مقبول کا رابطہ، پنجاب اسمبلی کی قرارداد پر مبارکبادانہوں نے واضح کیا کہ مقامی حکومتوں، لوکل گورنمنٹ کا گراس روٹ لیول پر نہ ہونا ریاست کے شہری سے معاہدے کو بالکل کمزور کرتا ہے، ریاست کا میرے ساتھ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے، ریاست نے بنیادی طور پر مجھے کچھ چیزیں لازمی دینی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے میری مقامی حکومت ٹیکس وصول کرے تو مجھے پتہ ہے کہ یہ میرے علاقے میں خرچ ہوگا، کسی بڑی سوسائٹی میں رہنے والے کے سامنے مسائل نہیں، متوسط طبقے کے ساتھ کئی مسائل ہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہئے، پارلیمان اس پر ضرور غور کرے۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا کہ ہم پارلیمان سے کہہ رہے ہیں اگر 27ویں ترمیم کرنی ہے تو شہریوں کے ساتھ ریاست کا معاہدہ مضبوط کریں، اگر آل پارٹیز کانفرنس بھی کرنی پڑتی ہے تو مہربانی کرکے فوری کرائیں، یہ شہری اورریاست کے معاہدے کو مضبوط رکھنے کیلئے لازم ہے۔