گرین لینڈ: پچاسی فیصد لوگ امریکہ میں شامل ہونے کے خلاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جنوری 2025ء) ایک تازہ رائے عامہ کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ گرین لینڈ کے 85 فیصد باشندے امریکہ میں شامل ہونے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اصرار کیا تھا کہ گرین لینڈ کے لوگ یہی چاہتے ہیں، جس کے بعد یہ پول کیا گیا۔
پولسٹر ویرین کے ایک سروے، جسے ڈنمارک کے اخبار برلنگسک نے کمیشن کیا تھا، کے مطابق صرف چھ فیصد گرین لینڈ کے باشندے امریکہ کا حصہ بننے کے حق میں ہیں، جب کہ نو فیصد افراد غیر فیصلہ کن ہیں۔
گرین لینڈ: ٹرمپ کی دھمکی پر جرمنی اور فرانس کی سخت تنقید
اس ماہ کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ گرین لینڈ امریکی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے اور ڈنمارک کو دفاعی حکمت علی کے اعتبار سے اہم اس آرکٹک جزیرے کا کنٹرول چھوڑ دینا چاہیے۔
(جاری ہے)
ہفتے کے اواخر میں اپنے طیارے ایئر فورس ون پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ "مجھے لگتا ہے کہ ہم اسے حاصل کرنے جا رہے ہیں۔
" انہوں نے مزید کہا کہ آرکٹک جزیرے کے 57,000 رہائشی "ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔"ڈونلڈ ٹرمپ کے علاقائی عزائم: پاناما کینال اور گرین لینڈ پر کنٹرول کی خواہش
واضح رہے کہ شمال مغربی گرین لینڈ کے پٹوفک خلائی اڈے پر امریکی فوج پہلے سے ہی مستقل طور پر تعینات ہے، جو اس کے بیلسٹک میزائل کے ابتدائی وارننگ سسٹم کے لیے ایک اہم اسٹریٹجک مقام ہے۔
ہم گرین لینڈ کی پوزیشن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ ایجدی، جو ڈنمارک سے جزیرے کی آزادی کی وکالت کرتے رہے ہیں، کئی بار کہہ چکے ہیں کہ یہ جزیرہ فروخت کے لیے نہیں ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ عوام پر منحصر ہے۔
57 ہزار کی آبادی پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے جزیرے کو سن 2009 میں وسیع خود مختاری دی گئی تھی، جس میں ایک ریفرنڈم کا حق بھی شامل تھا، جس کے تحت ڈنمارک سے آزادی کا اعلان کرنے کا حق بھی تھا۔
گرین لینڈ: امریکا، چین اور روس کی بڑھتی دلچسپی، کیوں؟
اس دوران ڈنمارک نے پیر کے روز کہا کہ وہ آرکٹک میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے کے لیے 14.
منگل کے روز ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے ملاقات کی تھی اور کہا کہ یورپ اور بیرونی دنیا کے سیاسی رہنماؤں نے بھی بین الاقوامی سرحدوں کے احترام کو برقرار رکھنے کے اصول کی مکمل حمایت کی ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی ڈبلیو، ذرائع)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گرین لینڈ کے کے لیے
پڑھیں:
’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔
ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔
جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔
میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔
ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘