سردیوں میں انڈے اور چائے کا زیادہ استعمال آ پکے لیےکیسے نقصان دہ ہو سکتاہے ؟جانئے
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
موسم سرما کو کھانے کا موسم بھی کہا جاتا ہے اور سردیاں شروع ہوتے ہی ہر طرف گرم گرم غذاؤں کے اسٹالز اور ہوٹلز پر رش لگ جاتا ہے جب کہ گھروں میں بھی لوگ گرم غذاؤں کو اہتمام سے تیار کرتے ہیں۔
موسم سرما میں زیادہ تر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو سردیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسی گرم غذائیں زیادہ سے زیادہ کھائیں جو سردی کی شدت کو کم کرتی ہیں۔تاہم بعض گرم غذائیں ایسی بھی ہیں جنہیں سردیوں میں زیادہ کھانے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ہم درج ذیل کچھ ایسی غذاؤں کی فہرست دے رہے ہیں، جنہیں سردیوں کے لیے اچھی غذائیں مانا جاتا ہے لیکن اگر ان کا زیادہ استعمال کیا جائے تو مسائل ہو سکتے ہیں۔
دودھ سے بنی مصنوعات
اگرچہ دودھ کو مکمل غذا مانا جاتا ہے مگر موسم سرما میں بہتر یہی ہے کہ اس کا استعمال کم کردینا چاہیے، ماہرین کے مطابق دودھ بلغم کا باعث بنتا ہے، جو گلے میں خراش کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ٹھنڈے یا گرم مشروبات
ہر شخص اس موسم میں چائے کافی کا استعمال پسند کرتا ہے مگر ان مشروبات میں موجود چربی اور کیفین کی مقدار کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، یہ مشروبات جسم میں پانی کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں، تو ان سے لطف اندوز ضرور ہوں مگر بہت زیادہ پینے سے گریز کریں بلکہ پانی کو ترجیح دیں۔
سرخ گوشت اور انڈے
یہ دونوں چیزیں پروٹین کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں، مگر بہت زیادہ پروٹین گلے میں مواد کے اجتماع کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر پراسیس گوشت یا زیادہ چربی والا گوشت مسئلے کا باعث بن سکتا ہے جبکہ مچھلی اور مرغی نسبتاً بہتر آپشن ہیں۔
تلی ہوئی غذائیں
ڈیپ فرائی غذائیں ٹرانس فیٹ سے بھی بھرپور ہوتی ہیں اور غذائی فائدہ جسم کو پہنچانے کے بغیر ہی کیلوریز کی مجموعی مقدار کو بڑھا دیتی ہیں، اس طرح کی غذائیں بدہضمی یا معدے کے دیگر مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔
غیر موسمی پھل
کبھی بھی ایسے پھل کو استعمال نہ کریں جو کسی اور موسم کا ہو کیونکہ وہ تازہ نہیں ہوتا اور بیماری یا طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے، اس کی جگہ زیادہ ترش پھل جیسے مالٹے، کینو وغیرہ کا استعمال کریں جو جسم کے میٹابولزم کو بہتر کرتے ہیں۔
چینی
طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ موسم سرما میں زیادہ میٹھا کھانا جسمانی دفاعی نظام کو کمزور کرسکتا ہے، جو مختلف امراض کے لیے جسم کو آسان شکار بنا دیتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بن سکتا ہے کا باعث بن جاتا ہے
پڑھیں:
سیلاب زدگان کی فوری امداد
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر قدرتی آفات کے سامنے کھڑی ہے۔ رات کے وقت جب خیموں میں یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ اندھیرے میں کہیں کوئی سانپ نہ آجائے، بوڑھا کسان جب یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی کو بھارتی آبی جارحیت نے لوٹ لیا، اس کے کھیتوں میں کھڑی فصل ڈوب گئی ہے، وہ جس کنارے پر بیٹھا ہے، چند انچ نیچے سیلابی پانی موجود ہے، خطرہ ہے کہ مزید سیلابی پانی آ گیا تو یہ کیمپ بھی ڈوب جائیں گے۔
روزنامہ ایکسپریس کی اس خبر پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جس میں یہ چھپا تھا کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا ہے، جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی، مزید 8 افراد ڈوب گئے، جلال پور پیر والا میں موٹروے کا حصہ بہہ گیا۔
متاثرین کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، ریلے سکھر میں داخل، مزید دیہات ڈوب گئے، ایسے میں کسان سوچ رہا ہوگا کہ میرا تو سب کچھ نقصان ہو گیا اور ایسا نقصان جسے وقتی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میرے کئی عشرے کھا جائے گا، کیوں کہ یہ نقصان اب قلیل مدت کا نہیں رہا، یہ تو کئی سالوں کے مضر اثرات والا ہے۔
ایسے میں کسی نے اسے تسلی دی ہوگی کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں یوں کہا ہے کہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدتی طور پر متاثر کیا ہے۔ کسان کی پیشانی کی لکیروں پر ارتعاش پیدا ہوا۔ چہرہ فق ہونے لگا، سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔
اسے معلوم نہیں کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بات ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے اس کی معیشت اجڑ گئی، کھیتوں کی لہلہاتی فصلیں زمین میں دفن ہوکر رہ گئیں، مال مویشی اس سے جدا ہو گئے، کئی عزیز و اقارب پانی کی نذر ہوگئے، ایسے میں یہ خبر بھی مزید پریشانی کا باعث تھی کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا۔ مزید 8 افراد ڈوب گئے۔
اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کا امکان ظاہرکیا ہے۔ 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، اس وقت سیلاب کا نقصان10 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔
ہ سیلاب اس سے کہیں زیادہ پیمانے پر ہے، بہت سے افراد کا بالکل صحیح خیال ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔ اتنا زیادہ پانی، اتنا نقصان، اتنے سانپ، اتنی اموات، ہر طرف پانی ہی پانی، پانی کا ایک ریلا گزرتا نہیں، بھارت دوسرا ریلا چھوڑ دیتا ہے۔
15 تاریخ کو ایک اور بہت بڑا ریلا چھوڑ دیا، یہ سیلاب کوئی معمولی نقصان، وقتی نقصان، قلیل مدتی متاثر کن نہیں ہے اس نے مستقبل اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، برآمدات کم ہوں گی اور غذائی درآمدات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
اس سیلاب نے کپاس کی فصل بالکل ہی تباہ کر کے رکھ دی ہے، ہماری مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 سے 60 فی صد تک بنتا ہے، اب کارخانوں کی شفٹیں کم ہوں گی، بے روزگاری بھی بڑھے گی۔
گزشتہ مالی سال 32 ارب ڈالرکی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان پھر پیچھے جا کر 25 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر پائے گا اور درآمدات 58 ارب ڈالر سے بڑھ کر 65 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے۔
اس طرح تجارتی خسارہ بڑھ کر رہے گا۔ حکومت اسے وقتی نقصان کہتی رہے لیکن عالمی موسمیاتی تبدیلی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ اب مستقل کا معاملہ اختیار کر چکا ہے۔ پہلے سے بھی کہیں زیادہ تیاری کرنا ہوگی۔ ابھی ہم اس سیلاب کے نقصان کو برسوں تک پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی جس نے پاکستان کے پہاڑوں، گلیشیئروں، دریاؤں، کھیتوں کا مستقل رخ کر لیا ہے اور پاکستان کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کئی عشروں کے خواب ڈبو دیے ہیں۔ ہمیں سنبھلنا پڑے گا، وقتی نقصان قرار دینے کے علاوہ عملاً مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہوگی۔ 2022 میں جن علاقوں سے سیلاب ہو کرگزرگیا تھا، وہاں کے کسان مدتوں تک اپنے کھیتوں سے پانی نکالنے کے لیے حکومتی پلان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ سب سستی کاہلی ہماری معاشی ناتوانی، منصوبہ بندی کا فقدان اور بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔
اس مرتبہ سیلاب کے اترنے کے فوری بعد تمام زمینوں کو کاشت کے قابل بنا کر دینا، ہر صوبائی اور وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ سڑکیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کر گڑھوں کی شکل اختیارکرچکی ہیں ان کی فوری تعمیر کی ضرورت ہے۔
ہماری حکومت تنقید کے جواب میں اپنی توانائی ضایع کرتی ہے حکومت چاہے صوبائی ہو یا مقامی انتظامیہ، وہ سب اپنی پھرتی، کارکردگی دکھائیں تو جواب عملی طور پر سامنے آجائے گا۔ اس وقت پوری قوم مشکل میں ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع سیلاب کی شدید لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
مخیر حضرات اب آگے بڑھیں، خاص طور پر اشرافیہ اپنی بڑی بڑی دیوہیکل گاڑیاں لے کر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گڑھوں کو عبور کرتے ہوئے خوراک، ادویات،کپڑے، جوتے، مچھردانیاں اور ضرورت کا بہت سا سامان، خاص طور پر پکا پکایا کھانا یہ سب لے کر ضرورت مندوں، بھوکوں کو لے جا کر دیں اور یہ ثواب کمانے کا نادر موقعہ ہے۔