مذاکرات اور مفاہمت کی سیاست کا خاتمہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات یا مفاہمت کے عمل میں ڈیڈ لاک کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔کیونکہ جہاں فریقین میں بد اعتمادی کا ماحول ہوگا اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے شک کی نگاہ سے دیکھیں گے تو وہاں مذاکرات کم اور تلخیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ پہلے سے اس بات کا اندازہ تھا کہ اگرچہ مذاکرات کی میز سجائی گئی ہے لیکن مذاکرات بے نتیجہ رہیں گے ۔
حکومت کی کوشش تھی کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ پی ٹی آئی کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی مذاکرات کے نام پر حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ وہ سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ تاثر بھی دیا گیا کہ پی ٹی آئی کے سخت مزاج رکھنے والے لوگ مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی بہت تیزی سے مذاکرات کا نتیجہ چاہتی ہے جب کہ حکومت کی کوشش تھی کہ پی ٹی آئی کومذاکراتی عمل میں لمبے عرصے تک جوڑا جائے جو یقینی طور پر پی ٹی آئی کو قبول نہیں تھا۔ حکومت کسی بھی معاملے میں عدالتی کمیشن بنانے کے حق میں نہیں تھی کیونکہ کمیشن بنانے سے اس کی سیاسی اور قانونی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا تھا۔اس لیے حکومت عدالتی کمیشن بنانے سے زیادہ پارلیمانی کمیشن بنانے کے حق میں تھی تاکہ اس سے حکومت اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکے،پی ٹی آئی اس کے لیے تیارنہیںتھی۔اسی طرح اسپیکر کمیٹی کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں جب کہ حکومت 31جنوری کے بعد کمیٹی کو ختم کرکے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ فیصلہ سازی کا اختیار تھا۔کیونکہ یہ سب کو معلوم تھا کہ فیصلے کا اصل اختیار حکومت سے زیادہ پس پردہ قوتوں کے پاس ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کی ساری توجہ کا مرکز بھی حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ ہی کی طرف تھا۔پی ٹی آئی کو اندازہ تھا اگر ان کو کوئی سیاسی ریلیف ملا یا کوئی سیاسی سمجھوتہ ہوا اس کا راستہ حکومت سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے ہی نکلے گا۔اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کی حکمت عملی میں اسٹیبلیشمنٹ کی طرف جھکاؤ یا حمایت کا حصول تھا۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے مطالبات کی بات ہے ان میں 8 فروری کے انتخابات کی دھاندلی کی تحقیقات،نو مئی کے واقعات،26نومبر کی تحقیقات،26 ویں ترمیم کاخاتمہ،سیاسی قیدیوں کی رہائی،سیاسی انتقام ،اسٹیبلیشمنٹ سے بہتر تعلقات سمیت سیاسی سرگرمیوں اور نئے انتخابات کا مطالبہ شامل ہے۔ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کو حکومت سے ملنے کے امکانات کم ہیں۔خود حکومت کو اندازہ ہے کہ وہ کس حد تک پی ٹی آئی کے مطالبات مان سکتی ہے۔
اصل میں اس مفاہمت اور مذاکرات کے عمل سے بہت سے لوگوں کو توقعات تھی کہ بات آگے بڑھے گی ۔لیکن اصل مسئلہ دونوں طرف سے نیتوں کا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ مذاکرات کے نام پر ایک سیاسی جادوگری کا کھیل دونوں طرف سے سجایا جا رہا ہے۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ دونوں طرف سے ایسے لوگ مذاکراتی کمیٹیوں کا حصہ تھے جن کے پاس فیصلے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ایک گروپ ہر فیصلہ کرنے سے قبل اڈیالہ جیل کا رخ کرتا تھا جب کہ دوسرا گروپ وزیراعظم ہاؤس یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتا تھا۔اس لیے مذاکراتی کمیٹیوں کا یہ کمزور عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہونا تھا۔حکومت کی کوشش تھی کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی بانی پی ٹی آئی کو نظر انداز کر کے معاملات کو آگے چلائے جو یقینی طور پر ممکن ہی نہیں تھا۔
اس لیے جب بھی مذاکراتی عمل آگے بڑھتا پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو بانی پی ٹی آئی کی طرف دیکھنا پڑتا تھا اور انھی سے ہدایت لینا پڑتی کیونکہ فیصلے کا ریموٹ کنٹرول بانی پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہی تھا۔بانی پی ٹی آئی ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں ان کی کمزوری یا ڈیل یا سیاسی سمجھوتے کا پہلو نمایاں ہوکیونکہ اس سے ان کی پاپولر سیاست متاثر ہوسکتی ہے۔اس مذاکراتی عمل کا ایک نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہم سیاسی ڈیڈ لاک کا شکار ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس ڈیڈ لاک نے قومی سیاست کے آگے بڑھنے کے راستے محدود کر دیے ہیں۔سیاست دان اور سیاسی جماعتیں سیاسی راستہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں اور غیر سیاسی حکمت عملی سیاسی حکمت پر غالب ہو چکی ہیں۔
سیاسی اور جمہوری عمل کی ناکامی نے پاکستان کے جمہوری مقدمہ کو کمزور کیا ہے ۔ممکن ہے کہ آگے جا کر پی ٹی آئی دوبارہ مذاکراتی عمل کا حصہ بن سکتی ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اسے پس پردہ قوتوں ہی کی جانب سے کچھ ریلیف ملتا ہوا نظر آئے گا یا پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ میں اہمیت اختیار کر رہی ہے۔کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل کسی بھی سطح پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا۔حالیہ دنوں میں ایک اہم تبدیلی پی ٹی آئی کے سخت گیر موقف میں کمی کی ہے۔یقینا یہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوگا اور پی ٹی آئی یہ دیکھے گی کہ اس حکمت عملی کے تحت اسے کیا سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔بانی پی ٹی آئی مفاہمت اور مزاحمت دونوں کے درمیان کھیلنے کی کوشش کریں گے اور جہاں دباؤ ڈالیں گے وہاں وہ یہ پیغام بھی دیں گے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ میں بھی اس بات کا احساس ہے کہ یہ جو ڈیڈ لاک ہے بہت لمبے عرصے تک نہیں چل سکے گا۔پی ٹی آئی کے ساتھ کچھ معاملات تو طے ہونے ہیں۔آج نہیں تو کل پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیوں میں ریلیف ملے گا۔اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی بھی کوشش ہوگی کہ جو سیاسی ڈیڈ لاک قومی سیاست میں قائم ہے وہ ٹوٹے اورخود اس پر جو دباؤ ہے یا جو تنقید ہو رہی ہے۔
اس میں کمی واقع ہو نی چاہیے۔کیونکہ جو سیاسی ڈیڈ لاک ہے اس نے قومی سیاست کی صحت کو متاثر کیا ہے اور قومی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔لیکن اگر مذاکرات حقیقی معنوں میں آگے نہیں بڑھتے اور محض مصنوعی بنیادوں پر مذاکرات کا کھیل سجایا جاتا رہا اور اس کا مقصد ریاستی مفاد سے زیادہ ایک دوسرے کے سیاسی مفادات ہوں گے تو پھر مفاہمت کم اورذات پر مبنی سیاست زیادہ ہوگی۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم قومی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکامی سے دو چار ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی مذاکراتی عمل پی ٹی آئی کی پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی کے کے درمیان حکمت عملی حکومت کی حکومت سے سے زیادہ کہ پی ٹی کی کوشش کی طرف تھی کہ اس لیے
پڑھیں:
بلوچستان اور کے پی میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ تو دور کی بات، مولانا فضل الرحمٰن
اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، افسوس حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بالکل بھی نہیں۔
ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن کے وقت بھی دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ہمیں جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ افغانستان پر جب امریکا نے حملہ کیا اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی، اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی، اتحاد امہ کے لیے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے بھی اسلحے کو اٹھانا غیر شرعی قرار دیا، پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ہم حرام قرار دے چکے اور اس وقت سے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟
26ویں ترمیم
مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا، اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے 31 دسمبر 2027ء کی تاریخ آخری ہے اور اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کورٹ میں گئے تو حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028ء کو اس پر عمل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خلاف کوئی اپیل ہوئی تو ایک سال کے اندر یہ مہلت ختم ہوگی اور فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کا کوئی چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا لیکن اب شرعی عدالت کا جج شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بحث کے لیے پیش کی جائیں گے، پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں اب اس پر بحث ہوگی۔
غیرت کے نام پر قتل
انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کے لیے دشواری؟
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت اور غیر شرعی ہے، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے۔
مسئلہ کشمیر و فاٹا انضمام
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی موقف واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے، کس طرح مشرف نے کہا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا اور بتدریج جس طرح پاکستان کشمیر سے پیچھے ہٹا یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ مودی نے جب خصوصی حیثیت ختم کی اس وقت ہم مذمتی قرارد میں خصوصی آرٹیکل 370 کا تذکرہ تک نہ کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا کا انضمام کر دیا اور اس وقت بھی کہا تھا یہ غلط کیا جا رہا ہے، خطے میں امریکی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے جغرافیائی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئیں۔ اب صوبائی حکومت خود کہتی ہے کہ انضمام کا فیصلہ درست نہیں تھا کمیشن بناتے ہیں، اب اگر آپ واپس ہٹیں گے یا صوبہ بنائیں دو تہائی اکثریت صوبائی و وفاق میں چاہیے ہوگی۔
اسرائیلی جارحیت
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے اور دو ریاستی حل صرف ایک دھوکا ہے، اسرائیل غاصب ہے۔ خالد مشعل نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 70 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا تھا کہ نوزائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی ہوگی، پاکستان نے 1940ء میں فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی اور سب سے پہلے ہم نے اسے ناجائز ریاست قرار دیا۔ حرمین بھی ہمارا ہے اور قبلہ اول بھی ہمارا ہے، مگر آج قبضہ یہود کا ہے، آج جو کچھ فلسطینیوں پر گزر رہی ہے یہ حضور اکرم کی حدیث ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایران نے اس کا جواب دیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہم اس کی بھی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاک انڈیا جنگ میں ایران نے جس طرح پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا وہ بھی لائق تحسین ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی اتحاد امت کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔