ایران کو اقتصادی پابندیوں سے 12کھرب ڈالر کا نقصان
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے سابق سکریٹری جنرل اور تہران یونیورسٹی میں بین الاقوامی علوم کی فیکلٹی کے ڈین سعید رضا آملی نے انکشاف کیا ہے کہ 2012ء سے عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو تقریباً 12کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ انہوں نے ایرانی ٹیلی وژن پر اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ان نقصانات نے ایرانی عوام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ انہوں نے ان پابندیوں کے نتیجے میں شہریوں کو پہنچنے والے اقتصادی نقصان پر زور دیا ۔ املی نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ پابندیوں سے نایاب امراض کی ادویہ متاثر ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے لاعلاج بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اپنی تقریباً 95 فیصد ادویہ مقامی طور پر تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس شعبے میں ایک مضبوط ملک ہے ۔ اس کے باوجود پابندیاں اب بھی ان مریضوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں جنہیں بعض ایسی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے جو پابندیوں کی وجہ سے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتیں۔ ایران پر پابندیاں پہلے سے عائد تھیں لیکن وہ 2015 ء میں جوہری معاہدے کے تحت اٹھا لی گئی تھیں۔ 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ کے دستبردار ہونے کے بعد امریکا نے تہران پر یک طرفہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جو تاحال برقرار ہیں۔ ان دنوں تہران کی جانب سے نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے آمادگی کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور اسے واشنگٹن کی جانب سے جواب کا انتظار ہے ۔امریکا نے اگر دوبارہ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو نئے معاہدے میں ایران کا میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسی جیسے معاملات مذاکرات میں زیر بحث آسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی وجہ سے
پڑھیں:
مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔