Jasarat News:
2025-11-05@00:35:17 GMT

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اسلام کی ایک اصطلاح ’’مسلمان‘‘ ہے۔ ایک اصطلاح ’’مومن‘‘ ہے مسلمان اور مومن کا فرق یہ ہے کہ مسلمان ایک ادنیٰ درجے کا مومن ہے اور مومن ایک اعلیٰ درجے کا مسلمان۔ اسی لیے اقبال نے اپنی شاعری میں مومن کا قصیدہ لکھا ہے۔ اس قصیدے کا ایک شعر ہے۔

تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

ظاہر ہے کہ اگر مومن صرف احکاماتِ الٰہی کا پابند ہے تو وہ کسی ’’شریف حکومت‘‘ یا اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کو کیسے خاطر میں لا سکتا ہے مگر پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے کہ اقبال کے پاکستان میں پیکا ایکٹ کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا غلام بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ اقبال نے اسلامی معاشرے کے نوجوانوں کو شاہین قرار دیتے ہوئے خدا سے دعا کی تھی۔

جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کردے

مگر پاکستان کے جرنیل اور ان کے سیاسی کتے پاکستان میں پیکا ایکٹ کے ذریعے شاہین بچوں کے بال و پر کو کترنے اور انہیں پرواز کی صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے دن رات ایک کررہے ہیں۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلامی ریاست کے باشندے ہمیشہ احکامات الٰہی کے پابند رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ حکمرانوں کے سامنے بے مثال آزادی اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں سیدنا عمرؓ سے زیادہ جلیل القدر یا تو سیدنا ابوبکرؓ تھے یا خود رسول اکرمؐ مگر سیدنا عمرؓ کی خلافت کا مشہور واقعہ ہے کہ کہیں سے چادریں آئیں اور مسلمانوں میں تقسیم ہوئیں۔ ان میں سے ایک چادر سیدنا عمرؓ کے حصے میں بھی آئی جس سے انہوں نے ایک قمیص سلوا لی۔ اعتراض کرنے والے نے بھری مجلس میں سیدنا عمرؓ سے سوال کرلیا کہ آپ کی قمیص اس چادر میں کیسے سلی اس لیے کہ آپ دراز قد ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ کے فرزند نے وضاحت کی کہ میں نے اپنی چادر سیدنا عمرؓ کو دی تھی چنانچہ دو چادروں کو ملا کر ایک قمیص سلوالی گئی۔ ظاہر ہے کہ جب اسلامی ریاست میں سیدنا عمرؓ جیسے صحابی رسول پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے تو میاں شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کی بساط ہی کیا ہے؟ لیکن حریت فکر کا معاملہ صرف سیدنا عمرؓ سے متعلق نہیں۔ امام ابوحنیفہ مسلمانوں کے سب سے بڑے فقہی مسلک کے بانی تھے۔ ان کے زمانے کا حکمران ابو جعفر منصور انہیں قاضی بنانا چاہتا تھا مگر امام حنیفہ قاضی بن کر منصور کی رائے کے مطابق فیصلے نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے قاضی بننے سے صاف انکار کردیا۔ منصور نے انکار کی پاداش میں امام ابوحنیفہ کو جیل میں ڈال دیا اور انہیں کوڑے لگوائے۔ امام ابوحنیفہ منصور کے تشدد سے شہید ہوگئے مگر انہوں نے حاکم وقت کے ناجائز احکامات کو ماننے سے انکار کردیا۔ امام مالک کے زمانے میں منصور نے عوام سے جبراً بیعت لینی شروع کی۔ امام مالک نے اس کی مخالفت کی۔ منصور نے انہیں بھی جیل میں ڈال دیا۔ امام حنبل کے زمانے میں قرآن کے مخلوق ہونے کا فتنہ پیدا ہوا۔ وقت کا حکمران چاہتا تھا کہ امام حنبل قرآن کے مخلوق ہونے کے حق میں فتویٰ دیں مگر امام حنبل نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ انہیں بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے جہانگیر کے خلاف اسلام معاملات کو چیلنج کیا۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو قید کردیا مگر مجدد الف ثانی اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور انہیں منوا کر چھوڑا۔

قائداعظم بانی ٔ پاکستان ہیں اور انہوں نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کرکے پاکستان قائم کیا۔ قائد اعظم آزادیٔ فکر اور آزادیٔ صحافت پر کامل یقین رکھتے تھے۔ ان کا مشہور زمانہ قول ہے کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی طرف جاتی ہے اور جب صحافت زوال آمادہ ہوتی ہے تو قوم بھی زوال کی کھائی میں گر جاتی ہے۔ آزادیٔ فکر کے سلسلے میں قائداعظم کا وژن کیا تھا قائداعظم کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ قائداعظم نے کہا۔

’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ’’ضابطۂ حیات‘‘ پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانونؐ، پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کررکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے: ’’مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو‘‘۔ (سبی دربار بلوچستان۔ 14 فروری 1948ء)

’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی بنیاد ہے۔ کسی بھی شخص کے پاس کیا جواز ہے کہ وہ عوام الناس کے لیے انصاف اور رواداری پر اور دیانت داری کے اعلیٰ معیار پر مبنی جمہوریت، مساوات اور آزادی سے گھبرائے۔ (کراچی بار ایسوسی ایشن۔ 25 جنوری 1948ء)

قائداعظم نے مزید فرمایا۔

’’پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم نے گزشتہ دس سال سے جدوجہد کی ہے، آج اللہ کے فضل سے ایک زندہ حقیقت ہے۔ لیکن اپنے لیے ایک مملکت کی تخلیق بذاتِ خود مقصود نہ تھی بلکہ مقصود کے حصول کا ایک ذریعہ تھی۔ ہمارا نظریہ یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، ہم اپنی تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلیں پھولیں اور جہاں اسلامی معاشرتی انصاف کے اصولوں کو آزادانہ تعمیل میسر ہو‘‘۔

قائداعظم کی تقاریر کے ان اقتباسات میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ مملکت پاکستان کے فیصلے باہمی ’’بحث و تمحیص‘‘ اور ’’مشوروں‘‘ سے ہوں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کو ملک کے دانش وروں، علما اور صحافیوں کا اختلاف اور تنقید کو برداشت کرنا ہوگا بلکہ اسے ’’مفید‘‘ سمجھنا ہوگا۔ دوسرے اور تیسرے اقتباس میں قائداعظم نے آزادی اور آزاد انسانوں کی اہمیت واضح کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان آزاد انسانوں کا ملک ہے امریکا، جرنیلوں یا ان کی پیدا کردہ ’’سیاسی طوائفوں‘‘ کا ملک نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمارے جرنیلوں اور ان کی پیدا کردہ سیاسی طوائفوں نے پاکستان کو ’’غلاموں‘‘ کا ملک بنانے کی سازش کی ہے۔ جنرل ایوب دس سال تک پاکستان پر مسلط رہے اور ان دس برسوں میں انہوں نے پاکستان کی صحافت کو کالے قوانین کا پابند رکھا۔ ان دس برسوں میں جنرل ایوب کے خلاف کسی اخبار میں ایک خبر، ایک کالم اور ایک اداریہ بھی شائع نہیں ہوسکا۔ جنرل یحییٰ کے تین برس بھی پاکستان کی صحافت قید رہی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان اور فوج کے خلاف نفرت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور ملک ٹوٹنے والا تھا مگر ہماری صحافت قوم کو بتارہی تھی کہ سب ٹھیک ہے اور ملک کے ممتاز صحافی الطاف حسین قریشی لکھ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کے لیے محبت کا زمزم بہہ رہا ہے۔ سقوط ڈھاکا ہوا تو قوم حیران رہ گئی اس لیے کہ ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن اور پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات قوم کو بھارت پر پاکستان کی فتح کی اطلاعات دے رہے تھے۔ ان اخبارات کے مطابق پاکستانی فوج بہادری اور بے جگری سے بھارت کی فوج کا مقابلہ کررہی تھی۔ مگر اصل صورت حال یہ تھی کہ ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی والے تھے اور آدھا پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکلنے ہی والا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھی صحافت کو پابند سلاسل رکھا۔ ان کے دور میں جسارت پر پابندی لگی اور اس کے مدیر اور ناشر کو جیل میں ڈالا گیا۔ دراصل بھٹو صاحب بھی جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی طرح قوم کو ’’زنخوں کی فوج‘‘ بنانا چاہتے تھے۔

جنرل ضیا الحق دس سال ملک پر مسلط رہے اور انہوں نے ان دس برسوں میں صحافیوں کو ’’ریاستی کتوں‘‘ اور ’’ضمیر فروشوں‘‘ کی فوج میں ڈھال دیا۔ میاں نواز شریف نے ملک کے بڑے بڑے صحافیوں کو خرید لیا۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے ہمیں خود بتایا کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو کشمیر کاز آگے بڑھانے کے لیے مجیب الرحمن شامی کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا تو نواز شریف نے قاضی صاحب سے کہا کہ ان کا نام نہ لیں۔ کیونکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر انہیں پیسے وقت پر نہ ملیں تو وہ فون کرکرکے جینا حرام کردیتے ہیں۔

اس وقت ذرائع ابلاغ پر جرنیلوں کے غلبے کا عالم یہ ہے کہ کوئی صحافی، کوئی اخبار اور کوئی چینل جنرل عاصم پر تنقید نہیں کررہا۔ جرنیلوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ذرائع ابلاغ عمران خان کا نام تک نہیں لکھتے۔ وہ انہیں ’’بانی پی ٹی آئی‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت پیکا ایکٹ کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو مزید غلامی میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بلاشبہ صحافیوں کی تنظیمیں اس صورت حال کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں لیکن یہ کافی نہیں۔ صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ پوری قوت سے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پالتو سیاسی کتوں کی مزاحمت کریں اور ذرائع ابلاغ کی بچی کھچی آزادی کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ذرائع ابلاغ پاکستان میں انہوں نے جیل میں کے خلاف اور ان کا ایک کے لیے ہے اور

پڑھیں:

خطے کے استحکام کا سوال

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔

اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔

 بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔

افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔

آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

 سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔

پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

 پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔

مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔

مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔

پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • کوئٹہ، ایام شہادت بی بی فاطمہ زہرا (س) کے سلسلے میں مجالس عزاء منعقد
  • ہم نے ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی اور کر رہے ہیں: اسحاق ڈار
  • پاکستان اور امریکہ میں تعلقات کی نئی راہیں کھل رہی ہیں،ملک خدا بخش
  • پی ایس ایل کے 11ویں ایڈیشن کی تیاریاں، پی سی بی کا نیا اقدام
  • یومِ اقبال پر عام تعطیل؟ اہم خبر آگئی
  • ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے