پیکا ترمیمی ایکٹ، وفاقی حکومت سمیت فریقین سے جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
درخواست میں یہ نکتہ اُٹھایا گیا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ غیر آئینی ہے اور یہ آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ کے منافی ہے. درخواست میں استدعا کی گئی کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیرآئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست پر وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے صحافی جعفر بن یار کی درخواست پر سماعت کی۔ جس میں پیکا ایکٹ میں ترمیم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عدالت نے فوری حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا منظور نہیں کی اور درخواستگزار کے وکیل کو باور کرایا کہ پہلے درخواست پر جواب آنے دیں کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے پہلے کسی صحافتی تنظیم اور اسٹیک ہولڈر سے رجوع نہیں کیا اور فاسٹ ٹریک کے ذریعے اس ایکٹ کو منظور کرایا گیا ہے۔ درخواست میں وفاقی حکومت بذریعہ کابینہ ڈویژن، پی ٹی اے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے پہلے کسی صحافتی تنظیم اور اسٹیک ہولڈر سے رجوع نہیں کیا گیا اور فاسٹ ٹریک کے ذریعے اس ایکٹ کو منظور کرا لیا گیا ہے۔ درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت فیک انفارمیشن پر تین برس قید اور جرمانے کی سزا ہوگی اور اس طرح پیکا ترمیمی ایکٹ میں نئی سزاؤں کے اضافے کے بعد رہی سہی آزادیِ اظہار بھی ختم ہو جائے گی۔ درخواست میں یہ نکتہ اُٹھایا گیا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ غیر آئینی ہے اور یہ آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ کے منافی ہے.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ پیکا ترمیمی ایکٹ پیکا ایکٹ میں ترمیم درخواست میں ایکٹ کو گیا ہے
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔