امریکا: ہر 34 سیکنڈ میں دل کی بیماری سے اموات کا تشویشناک انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
واشنگٹن:ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا میں ہر 34 سیکنڈ میں ایک شخص دل کی بیماری کے باعث جان کی بازی ہار رہا ہے، جس سے یہ بیماری ملک میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہے۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے صدر کیتھ چرچ ویل نے اس رپورٹ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ناقابل یقین اعدادوشمار ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں، کیونکہ دل کی بیماری سے مرنے والوں میں ہمارے اپنے دوست اور عزیز شامل ہو سکتے ہیں۔
تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق 2022 میں 941,652 امریکیوں کی اموات دل کی بیماری کے سبب ہوئیں۔ یہ تعداد کینسر، حادثات اور کورونا وائرس سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ تھی۔
کیتھ چرچ ویل کے مطابقدنیا میں موت کی پانچویں بڑی وجہ فالج ہے جب کہ دل کی بیماری عالمی سطح پر لاکھوں جانیں لے رہی ہے۔ یہ دونوں بیماریاں کینسر اور حادثاتی اموات سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی بیماری کی روک تھام ممکن ہے لیکن اس کے باوجود ہر سال لاکھوں افراد اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے صحت مند طرز زندگی، متوازن خوراک اور باقاعدگی سے طبی معائنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان عوامل پر توجہ دی جائے تو دل کی بیماری سے اموات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دل کی بیماری
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔