مانتا ہوں پیکا قانون سازی پر حکومت نے جلد بازی کی، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مانتا ہوں پیکا قانون سازی پر حکومت نے جلد بازی کی۔
جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کے دوران عرفان صدیقی نے جلد بازی کے اعتراف کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پیکا کا معاملہ ایسی بات نہیں جس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر صحافیوں کی رائے لینی چاہیے تھی، جو قانون مشاورت سے اچھا بن سکتا تھا وہ متنازع ہوگیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ پیکا ایکٹ قانون کی شکل اختیار کرگیا ہے، ایکٹ کی متنازع شک بتائیں تو بات کرنے کو تیار ہیں۔
ن لیگی سینیٹر نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی والے 23 جنوری کو فیصلہ کرچکے تھے، اپنی ڈیڈلائن کا انتظارنہیں کیا، وہ فیصلہ کیے بیٹھے تھے مذاکرات کو آگے نہیں لے کے جانا تو بغیر وجہ بتائے نکل گئے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تو حرف آخر لے آئے کہ یہ مطالبات ہیں، ہم نے اس میں بڑی لچک رکھی تھی، وہ مذاکرات میں غلطی سے آگئےتھے، وہ ان کا ایریا آف ایکسپرٹیز ہے ہی نہیں۔
عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ وہ اب اپنی اسپیشلائزیشن کی جگہ چلے گئے ہیں، ان کی اسپیشلائزیشن کا ایریا راستے روکنا، حملے کرنا، دھرنے دینا اور پیٹرول بم لے کر آنا ہے، وہ حملے کریں ریاست اپنے شہریوں اور وقار کا دفاع کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ مانتا ہوں پیکا قانون سازی میں حکومت نے جلد بازی کی، پیکا معاملہ ایسی بات نہیں جس کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عرفان صدیقی نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن
ملتان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے، پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام جنوبی پنجاب کے ملحقہ دینی مدارس کا عظیم الشان اجتماع خدماتِ تحفظِ مدارسِ دینیہ کنونشن کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے چار ہزار سے زائد مدارس و جامعات کے مہتممین اور ذمہ داران نے شرکت کی۔ کنونشن میں کہا گیا کہ مدارس کے خلاف ہتھکنڈے بند کریں ورنہ کفن پہن کر اسلام آباد کا رخ کرلیں گے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے لئے پنجاب والے اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم سڑکوں پر آکر اسلام آباد کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانا ہے۔ لیکن وفاق المدارس اور جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کو امن و استحکام کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ان اداروں سے خائف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں ایسے ماہرینِ شریعت نہیں دیکھنا چاہتیں جو شریعت کے مطابق قانون سازی کر سکیں۔ انہوں نے حقوقِ نسواں، نکاح کی عمر، گھریلو تشدد، اور وقف قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بیرونی دباو کے نتیجے میں بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت پنجاب کے آئمہ کرام کو دیے جانے والے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقوم ضمیر خریدنے کی کوشش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔