نیا قانون پی ایچ ڈی اور پروفیسرزکو وائس چانسلر بننے سے نہیں روکتا بلکہ دیگر امیدواروں سے مقابلے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وائس چانسلروں کے تقرر اورکنٹریکٹ پر اساتذہ ملازم رکھنے کی حکومتی فیصلوں کے خلاف یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے یہ بیانیہ اختیار کیا۔ اس بیان کے بعد سندھ کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ نے تدریس معطل کردی اور اساتذہ سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوئے۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار اساتذہ اور وائس چانسلروں کے تقررکے لیے قواعد و ضوابط بنانے والے اعلیٰ تعلیم کے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار نے سندھ حکومت کی نئی پالیسی کو یونیورسٹیوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا تو وزیر اعلیٰ نے اپنی ایک تقریر میں چیئرمین ایچ ای سی کے اس مؤقف کی شدید مذمت کی اور الزام عائد کیا کہ چیئرمین ایچ ای سی نے انھیں خط بھیجنے سے پہلے میڈیا کو جاری کر کے احتجاج پر اکتفاء کیا۔ مراد علی شاہ کا موقف ہے کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں سنگین انتظامی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ مفروضہ اخذ کیا کہ بعض وائس چانسلر اس احتجاج کو ہوا دے رہے ہیں۔ مراد علی شاہ نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ان کی انتظامیہ اس بحران سے نمٹ لے گی۔
پاکستان میں خود مختار یونیورسٹی کا حتمی تصور پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں آیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973میں یونیورسٹی قوانین میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ یونیورسٹی ایکٹ 1973کے تحت وائس چانسلرکا عہدہ وفاقی سیکریٹری کے برابر ہوا اور وائس چانسلرکے لیے اسپیشل گریڈ دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اساتذہ کو ابتدائی گریڈ 17 تفویض کیا گیا جو سی ایس پی کیڈر کے افسر کا بنیادی اسکیل ہوتا ہے۔ اساتذہ کے لیے گریڈ 21 (پروفیسر کی حیثیت سے) تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ختم کردی گئی۔
تعلیمی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین کی میعاد 3 سال مقرر ہوئی اور Rotation کی بنیاد پر چیئرمین کا تقرر ہونے لگا۔ فیکلٹی کے اساتذہ کو خود اپنے ڈین کے انتخاب کا حق دیا گیا۔ منتخب طلبہ یونین کے عہدیداروں کی یونیورسٹی کے بنیادی اداروں سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں نمایندگی کو قانونی تحفظ دیا گیا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن قائم کیا گیا جو یونیورسٹیوں کو دی جانے والی گرانٹ کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مجاز تھا۔ اس قانون کی بناء پر یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں طلبہ اور اساتذہ کی نمایندگی حقیقی شکل اختیار کر گئی۔ پہلی دفعہ دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیوں کی طرح پاکستانی یونیورسٹیوں میں علمی آزادی Academic Freedom کا ادارہ مستحکم ہوا۔ جب 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو معاشرے سے جمہوری رویے کی بیخ کنی کی گئی۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں یونیورسٹیوں کے قوانین میں یکطرفہ ترمیم کی گئی ۔ یونیورسٹی آرڈیننس میں من مانی ترامیم کی گئیں۔ طلبہ یونین کے نمایندوں کی یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں نمایندگی ختم کردی گئی۔ حکومت کو وائس چانسلرکے تقرر کے علاوہ ڈین اور ڈائریکٹر فنانس کے تقررکا اختیار مل گیا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اساتذہ کو وائس چانسلروں کے بجائے غیر سویلین افسروں کے علاوہ بیوروکریٹ کی تقرری کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کا علمی ماحول سخت متاثر ہوا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ کوشش کی ہے کہ سب سے پہلے سرکاری یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو ختم کیا جائے۔
سندھ حکومت کے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے 2018 میں یونیورسٹیوں کے قوانین میں ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت یونیورسٹی رجسٹرار، ڈین اور ڈائریکٹر فنانس کے تقررکا اختیار سندھ حکومت کو مل گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے بنیادی ادارہ سنڈیکیٹ میں اساتذہ نمایندوں کے مقابلے میں سرکاری اراکین کی تعداد بڑھا دی گئی۔
یونیورسٹی کے طریقہ کار کے بارے میں جاننے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ رجسٹرار وائس چانسلر کے نمایندے ہوتے ہیں اور وائس چانسلر کی ہدایات پر کام کرتے ہیں، اگر رجسٹرار وائس چانسلر کی ہدایات پر کام نہیں کرتے تو یونیورسٹی کا نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ سنڈیکیٹ میں سرکاری افسروں کی اقلیت ہوگئی جس سے سنڈیکیٹ کی ہیئت تبدیل ہوگئی۔ سندھ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے اس ترمیم کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ سندھ حکومت نے اساتذہ کے مطالبات کو ماننے کا اعلان کیا مگر یہ قانون منسوخ نہیں کیا۔ صرف کراچی اور سندھ یونیورسٹی میں ابھی تک اس قانون کا اطلاق نہیں ہوا، باقی یونیورسٹیوں کے حالات کا بغور جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کا تصور آیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بڑی مشکل سے سرچ کمیٹی کی حیثیت کو تسلیم کیا مگر اب بھی حکومت سرچ کمیٹی کے اراکین کا تقرر کرتی ہے۔ حکومت نے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین کی اہلیت کے بارے میں واضح قواعد نہیں بنائے۔ حکومت ہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے نئی سرچ کمیٹی بناتی ہے مگر سرچ کمیٹی کے کچھ مستقل اراکین بھی ہیں۔
سرچ کمیٹی طویل مشق کے بعد وائس چانسلروں کی اہلیت کا تعین کرتی ہے اور پھر سرچ کمیٹی جب کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے تین ناموں کو حتمی شکل دیتی ہے تو کلیئرنگ سرٹیفکیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ سرچ کمیٹی امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دی مگر ان امیدواروں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کلیئرنگ سرٹیفکیٹ نہیں دیا تو پھر یہ امیدوار نااہل قرار پاتے تھے۔ وزیر اعلیٰ خود امیدواروں کا انٹرویو کرتے اور امیدوار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس طویل جانچ پڑتال کے بعد ایسا امیدوار منتخب ہوجائے جو اخلاقی برائی میں مبتلا ہو تو اس امیدوارکے انتخاب کی براہِ راست ذمے داری سندھ حکومت کے وائس چانسلر چناؤ کے طریقہ کار بنانے والے بیوروکریٹس پر عائد ہوتی ہے۔
سندھ حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی متفقہ رائے ہے کہ وائس چانسلر کے تقرروں کے لیے میرٹ پر عمل پیرا ہونے کے بجائے وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کو وائس چانسلروں کے غلط تقررکی تحقیقات اپنے دفتر سے شروع کرنی چاہیے۔ سندھ کے تعلیمی بورڈ براہِ راست سندھ کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں مگر تمام تعلیمی بورڈ شدید انتظامی و تعلیمی بحران کا شکار ہیں۔ ہر سال جب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہوتے ہیں تو نئے اسکینڈلز سامنے آتے ہیں۔ انٹر سائنس کے امتحانات میں کراچی بورڈ کے طلبہ کے ساتھ زیادتیوں کے بارے میں تو پارلیمانی کمیٹی کی تحقیقات اخبارات میں شایع ہوتی ہے۔
سندھ حکومت کی بری طرزِ حکومت کی سب سے بڑی مثال گزشتہ مہینہ کراچی کے انٹرمیڈیٹ بورڈ کے گزشتہ سال 6کے قریب چیئرمین تبدیل ہونے کی ہے مگر بورڈ کی کارکردگی اس کے باوجود بہتر نہ ہوسکی۔ ان بورڈز کا نظام تو پی ایچ ڈی سند یافتہ پروفیسر کے پاس نہیں ہے۔ یونیورسٹی، کالج اور اسکول میں بنیادی فرق علمی آزادی کا ہے۔
یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ تحقیق کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور تحقیق کی بنیاد پر ہی یونیورسٹی کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ تحقیق کی باریکیوں کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے خود تحقیق کی ہو۔ تحقیق کرنے والا وائس چانسلر طلبہ و اساتذہ کو تحقیق کے لیے موضوعات کی طرف راغب کرسکتا ہے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے نوجوانوں میں غصہ ہوتا ہے، وہ مختلف طریقوں سے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک استاد جس کی ساری زندگی کلاس روم میں اور لیب میں گزری ہو وہ نوجوانوں کی نفسیات کو زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے۔
سندھ یونیورسٹی میں اساتذہ کو منظم کرنے کے لیے زندگی وقف کرنے والے استاد ڈاکٹر بدر سومرو کا کہنا ہے کہ اساتذہ اس ڈریکولا قانون کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ سندھ حکومت کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سندھ حکومت نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا تو اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا فرق مٹ جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یونیورسٹی کے بنیادی وائس چانسلر کے تقرر وائس چانسلروں کے میں یونیورسٹی یونیورسٹی میں کی یونیورسٹی پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ حکومت کے تقرر کے اساتذہ کو وزیر اعلی سرچ کمیٹی حکومت کی ہوتا ہے کو وائس کے لیے کی گئی
پڑھیں:
مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اسکو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کیلئے سبھی کو اتحاد کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پُرامن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن و امان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہے، ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سبھی کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر مسلم بھائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہماری مضبوط لڑائی کو جیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے علماء کرام اس کانفرنس میں شیروانی پہن کر آئے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی تو وہ کفن بھی پہن کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے ہاتھوں میں گھڑی ہے، کل ضرورت پڑی تو ہتکڑی بھی پہننے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور غریب مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں نفرت پیدا کرکے اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف قانون بناکر حکومت نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی پُرامن لڑائی کے ذریعہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے نائب صدر اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، خواجہ اجمیری درگاہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سرور چشتی، محمد سلیمان، صدر انڈین یونین مسلم لیگ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل، محمد شفیع، نائب صدر ایس ڈی پی آئی، روی شنکر ترپاٹھی، سردار دیال سنگھ وغیرہ موجود تھے۔
قابل ذکر ہے کہ مودی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے بعد اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیج دیا گیا۔ جے پی سی کا چیئرمین یوپی کے ڈومریا گنج کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کو بنایا گیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں کئی میٹنگوں کے بعد 14 ترامیم کے ساتھ اس بل کو منظوری دی تھی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کیا گیا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی مہر لگا دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔ اس کے بعد مختلف تنظیموں اور کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اس قانون کے کچھ پہلوؤں پر سوال اٹھایا اور چند نکات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے۔ عدالت میں اب 5 مئی 2025ء کو اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔