پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ ’’ ٹرمپ جدوں آئے گا تے لگ پتا جائے گا ‘‘ اور ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے فوری بعد وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے کال کرے گا لیکن انھیں حلف اٹھائے بھی اب دس دن سے اوپر ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک نہ تو کوئی کال آئی اور نہ ہی عمران خان کے لئے اب تک ٹرمپ کوئی ٹویٹ کیا اور وہ جو دوسروں کو پتا لگا رہے تھے اب انھیں پتے لگ رہے ہیں ۔ اب ٹرمپ کی کال تو آ گئی ہے لیکن وہ بانی پی ٹی آئی کو آئی ہے اور نہ ہی بانی پی ٹی آئی کے لئے آئی ہے بلکہ وہ کال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستانی صد آصف علی زرداری کو آئی ہے اور اس میں صرف ہیلو ہائے نہیں ہوا بلکہ دس منٹ سے زیادہ کی بات ہوئی ہے ۔ جس میں انھوں نے پاکستان کی تعریف کی ہے اور مل کر ساتھ چلنے کی امید کا اظہار کیا ہے ۔ ٹرمپ کی شخصیت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے متعلق پشین گوئی کرنا خاصا مشکل کام ہے اور وہ اکثر ایسے کام بھی کر جاتے ہیں کہ جن کی امید نہیں ہوتی لہٰذا کل کو وہ کیا کرتے ہیں اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن جو لوگ اس طرح کی کالز کا پروپیگنڈا کر رہے تھے انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح کے کام کرنے کے کچھ اور طریقے ہوتے ہیں اور اس میں ریاست کا ریاست سے رابطہ ہوتا ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام ذاتی بنیادوں پر ہو گا تو ان کی نظر میں ممکن ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی اہمیت ملک و قوم اور ریاست سے زیادہ ہے تو ان کی سوچ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ کوئی بھی ہو وہ ریاست سے بلند نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایسا نہیں کیا گیا اور اس کی مزید بہت سی وجوہات ہیں ۔
آنے والے دنوں میں چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے پاکستان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ کام پاکستان پہلے بھی کر چکا ہے ۔ چین کے حوالے سے یہ بھی خدشات ہیں کہ امریکہ نے اگر پاکستان کے ساتھ ایک حد سے زیادہ سرد مہری کا رویہ اپنایا تو پاکستان روس اور چین کے مزید قریب ہو جائے گا اور ویسے بھی گذشتہ چند برسوں میں کہ جب سے افغانستان سپورٹ فنڈ کی مالی امداد ملنی بند ہوئی ہے تو پاکستان کا امریکہ بہادر پر دارومدار کم ہو گیا ہے اور چین کے ساتھ دفاعی اور معاشی میدان میں قربتیں کافی زیادہ بڑھ چکی ہیں اور امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے کسی غلط رویے کی وجہ سے پاکستان امریکہ سے مزید دور ہو جائے ۔ ایران کے حوالے سے بھی پاکستان کی ایک زبردست اہمیت ہے اس لئے کہ آپ کہ پتا ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کا چھتیس کا آنکڑہ ہے تو امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کل کو ایران کے ساتھ اگر اس کی کوئی اونچ نیچ ہوتی ہے تو پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہو بلکہ اس کی خواہش ہو گی کہ پاکستان اگر امریکہ کا ساتھ نہیں دیتا تو کم از کم نیوٹرل تو رہے ۔ افغانستان میں امریکی یر غمالی اور اسلحہ کی وہاں سے منتقلی بھی ایک اہم ایشو ہے کہ اگر امریکہ نے بیانات سے ہٹ کر اس پر کام کیا تو اس میں پاکستان کا بڑا ہی اہم اور کلیدی کردار ہو گا اور یہ کردار کلی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا ہو گا۔ اس کے علاوہ مڈل ایسٹ کے مسائل ہیں اور اسی حوالے سے ایک بات یاد رکھیں کہ ٹرمپ کے سعودی ولی عہد سے بڑے اچھے تعلقات ہیں جبکہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ معاملات اس کے بالکل بر عکس ہیں اور کل کو اگر بالفرض محال امریکہ کی طرف سے کوئی دبائو آتا بھی ہے تو اس دبائو کے لئے سعودی ولی عہد بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ فلسطین ہے ان سب معاملات میں بھی پاکستان کی اپنی اہمیت ہے اسی لئے امریکہ ہو یا کوئی بھی اور ملک وہ اس طرح کسی کے لئے کسی ملک پر دبائو نہیں ڈال سکتا ۔
اب سب سے اہم بات جو کال سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ حیرت انگیز طور پر امریکی سرمایہ کاروں کے وفد نے بھی دو روزہ دورہ کیا اور جس کی قیادت ٹیکساس ہیج فنڈ کے منیجر اور ٹرمپ خاندان کے انتہائی قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ کر رہے تھے جو ٹرمپ فیملی کے قریبی دوست ہیں اور 2016کی الیکشن کمپین میں انھوں نے ٹرمپ جونیئر کے ساتھ مل کر بلین آف ڈالر اکھٹے کئے تھے لیکن اب تحریک انصاف کے سوشل میڈیل نے انھیں جعلی سرمایہ کار قرار دیا لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے اس لئے کہ 2016کی الیکشن مہم میں جینٹری بیچ اور ٹرمپ جونیئر نے جو فنڈ ریزنگ کی تھی اس کی تصاویر بھی نیٹ پر موجود ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ یہ معلومات بھی مل جائیں گی کہ ٹرمپ فیملی نے انھیں ٹرمپ جونیئر کے بچوں کے لئے گاڈ فادر بھی قرار دیا تھا ۔ اس کے علاوہ اگر سرمایہ کاروں کا یہ وفد جعلی ہوتا تو اس کی خبریں پورے میڈیا میں چل رہی ہیں تو امریکن محکمہ خارجہ یا پاکستان میں موجود امریکن سفیر کی جانب سے اب تک اس حوالے سے لازمی کوئی بیان آ جاتااور پھر حکومت اس طرح کی انتہائی احمقانہ حرکت کبھی نہ کرتی کہ جس کے 100%بیک فائر ہونے کے امکانات تھے ۔جینٹری بیچ نے پاکستان میں متعدد شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی بات کی ہے اور ان کے لہجے سے یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ یہ باتیں ہوا میں کر رے ہیں بلکہ واضح طور پر کچھ کرنے کے عزم کا اظہار ہو رہا تھا لیکن اس سرمایہ کاری سے بھی زیادہ اہم جینٹری ہیچ کا وہ انٹرویو ہے کہ جس میں انھوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ بہت زیادتی کی اور رچرڈ گارنیل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے متاثر کیا گیا اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ان کی پاکستان کے متعلق باتیں ہیں جس میں وہ بتا رہے تھے کہ وہ کس قدر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے اور ایسی ٹیکنالوجی لائیں گے کہ تیس منزلہ عمارت بھی چند دنوں میں بن جائے گی تو اب ٹرمپ کی کال کا جو چورن بیچ رہے تھے ان کا کیا بنے گا ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی حوالے سے ایران کے ٹرمپ کی کے ساتھ رہے تھے سے بھی چین کے کی کال اور اس ہے اور کے لئے
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!