نہرو کا بھوت کشمیر کب چھوڑے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
وہ 18جنوری 1955ء کا دن تھا جب ایک ایمبولینس ہسپتال میں تیزی سے داخل ہوئی۔ سٹریچر پر پڑے شخص کو جلدی جلدی ڈاکٹر تک پہنچایا گیا۔ اس کے منہ کے قریب لال رنگ کے قطروں کے کچھ داغ نمایاں تھے۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور مریض کے ساتھ آنے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ اس کی جگہ ہسپتال نہیں قبرستان ہے، یہ مرچکا ہے۔ ڈاکٹر کو کیا معلوم تھا کہ یہ مردہ کبھی ایک کشمیری بچہ تھا، جو اپنا بچپن امرتسر، جوانی لدھیانہ، علی گڑھ، دہلی اور بمبئی میں گزارتے ہوئے پختہ عمری میں پختہ ارادے کے ساتھ شہر لاہور پہنچا تھا اور پھر یہاں سے کہیں نہیں گیا۔ ڈاکٹر کا اردو کے ایک ممتاز قلم کار سعادت حسن منٹو کو نہ پہچاننے کا معاملہ اتنا افسوس ناک نہیں تھا لیکن منٹو کو بہت سے ادیبوں، نقادوں اور حکومتِ وقت کے نہ پہچاننے کا معاملہ شاید بہت افسوس ناک تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ مرچکا ہے۔ وہ اُس کے مردہ جسم کی بات کررہا تھا جس پر اس وقت کی حکومت اور بہت سے ادیب خوش ہوگئے ہوں گے کیونکہ وہ مردوں کو پسند کرنے کے باعث راجہ گدھ میں تبدیل ہوچکے تھے جس کی تصدیق 21ویں صدی میں ہوتی ہے جو پاکستانی لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی کی جرات زیادہ لوگوں میں لے کر آئی۔ محقق اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر روش ندیم لکھتے ہیں کہ مجھے منٹو کے اندر ہمیشہ نشاۃ الثانیہ اور 18ویں صدی کے یورپی ادیبوں کی سی باغیانہ تڑپ دکھائی دی ہے۔ سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے، نفسیاتی مریض ہونے اور ملک سے محبت نہ کرنے جیسے روایتی الزامات لگائے جاتے رہے جن کی بنیاد پر اُس کا اکثر بے روزگار رہنا، سوسائٹی میں ناپسندیدہ شخص قرار پانا اور ذہنی اذیت میں چلے جانا ایک قدرتی امر تھا لیکن وہ ایک خالص کشمیری تھا، اسے خود پر اعتماد تھا، اسی لیے مانگے کی اکڑپر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اُس نے تمام تر مقدمات، حاسد بہروپیوں اور تنگ دستی کے صحرائوں کا خوب مقابلہ کیا۔ ممتاز دانشور، اردو کے معروف نقاد اور محقق پروفیسر فتح محمد ملک سعادت حسن منٹو پر لگائے گئے اعتراضات کے حوالے سے اپنی ایک تصنیف ’’سعادت حسن منٹو ایک نئی تعبیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اپنی وفات سے نصف صدی بعد بھی منٹو اپنے نقاد کے انتظار میں ہے۔ ہماری تنقید اب تک منٹو کی اُسی شہرت کی اسیر چلی آرہی ہے جو بالکل ابتدا ہی میں منٹو کو مل گئی تھی۔ آغازِ کار سے لے کر پایانِ کار تک منٹو کا فن ایک مسلسل ارتقا ہے مگر اُردو تنقید نے منٹو کے بارے میں ادبی رائے عامہ سے زیادہ اعتنا کیا ہے اور منٹو کی فکری نشوونما اور منٹو کے موضوعات کے تنوع سے بہت کم سروکار رکھا ہیـ۔ پاکستان بننے کے بعد منٹو کی تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں پروفیسر صاحب نے اپنی اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ پاکستان کا طلوع اپنے جلو میں نئی تخلیقی زرخیزی لایا تھا۔ منٹو ہمارے ان فنکاروں میں یگانہ و یکتا ہے جنہوں نے اس تخلیقی زرخیزی کو کام میں لانے کی طرف توجہ دی۔ پاکستان کے قیام نے منٹو کے فکرو احساس کی دنیا کو منقلب کرکے رکھ دیا تھا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی منٹو نے نئی زندگی کے نئے ممکنات کو کھنگالنا شروع کردیا تھا۔ اس تعمیری اندازنظر نے منٹو کو اپنے معاصرین کے ساتھ فکری تصادم اور نظریاتی پیکار میں بھی مبتلا کردیا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک مزید لکھتے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ سعادت حسن منٹو نے کتاب سے زیادہ زندگی سے سیکھا ہے۔ وہ عمربھر اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھتے رہے۔ نئے تجربات اور گہرے مشاہدات سے انہوں نے ہمیشہ زندگی کی معنی خیز سچائیاں اخذ کیں اور ان کا انتہائی جرات سے اظہار کیا۔ اس سلسلے میں یہ بات انتہائی قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے برآمد ہونے والے انکشافات سے اپنے تصورات کو بارہا رد کردیا اور ان کی جگہ نئے تصورات اختیار کرلیے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں رونما ہونے والی تبدیلی ہے۔ ’’سعادت حسن منٹو ایک نئی تعبیر‘‘ میں منٹو کی پاکستان سے جذباتی وابستگی کے بارے میں تحریر ہے کہ سعادت حسن منٹو نے خود کو اگست سن سنتالیس میں پہچانا۔ سعادت حسن منٹو کا مَن کتنا مسلمان اور پاکستانی تھا اس بارے میں پروفیسر صاحب نے اپنی اسی کتاب میں بیان کیا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ اسلام، ہادی اسلام اور پاکستان کے خلاف لوگ ایک عرصے تک زہر اگلتے رہیں گے لیکن اس زہرافشانی کے باوجود اسلام اور پاکستان کے اٹل حقائق اپنی جگہ پر قائم اور دائم رہیں گے۔ چنانچہ منٹو، بابو رائو پاٹیل جیسے اسلام دشمن اور پاکستان مخالف قلم کاروں کے قلم کو غلاظت اور گندگی میں ڈوبا ہوا دیکھتے ہیں اور اُن کی تحریروں سے انہیں گھن آنے لگتی ہے۔ سعادت حسن منٹو کے مَن میں کشمیر کتنا بسا ہوا تھا اس کا اندازہ ان کے ایک مضمون ’’مرلی کی دھن‘‘ میں ہوتا ہے جس میں وہ اپنے ایک بمبئی کے سابقہ جگری یار شیام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج چودہ اگست ہے۔ وہ دن جب پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے تھے۔ اِدھر اور اُدھر دونوں طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حملے اور دفاع کی تیاریاں بھی زوروشور سے جاری ہیں۔ میںشیام کی روح سے مخاطب ہوتا ہوں۔ پیارے شیام! میں بمبئی ٹاکیز چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ کیا پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر نہیں چھوڑ سکتے؟ ہے نا ہپ ٹلا بات؟ ڈاکٹر نے سٹریچر پر پڑے ہوئے سعادت حسن منٹو کو دیکھ کر کہا تھا کہ اس کی جگہ یہاں نہیں بلکہ قبرستان ہے۔ ڈاکٹر نے بالکل غلط کہا تھا کیونکہ منٹو کی جگہ اور کہیں نہیں پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل میں ہے۔ کشمیری لکھتے ہوں یا لڑتے ہوں، ان کا مقصد آزادی ہے، انسان کی آزادی، زبان کی آزادی، قلم کی آزادی۔ آزادی کی جدوجہد کرنے والے کبھی مردہ نہیں ہوتے، زندہ رہتے ہیں۔ لوگ انہیں کتابوں میں، تحریروں میں اور دلوں میں یاد رکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل سطح پر منٹو کی علمی خدمات کے اعتراف کے بعد بھی کشمیری منٹو کی روح اس سوال کا جواب لینے کو تڑپ رہی ہے کہ نہرو کا بھوت کشمیر کب چھوڑے گا؟ یہ کالم 5فروری کو منائے جانے والے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سعادت حسن منٹو اور پاکستان کے بارے میں پاکستان کے کی ا زادی ڈاکٹر نے منٹو کو منٹو کے منٹو کی کی جگہ
پڑھیں:
سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-03-6
متین فکری
سید علی گیلانی کی چوتھی برسی یکم ستمبر کو منائی گئی۔ اس موقع پر اسلام آباد کے قومی عجائب گھر میں سید علی گیلانی کارنر کا افتتاح کیا گیا جس میں ان کے زیر مطالعہ قرآن پاک، جائے نماز اور دیگر اشیا رکھی گئی ہیں۔ انہیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ، مصور پاکستان علامہ اقبالؒ اور دیگر اکابرین کے ساتھ ان اہم شخصیات کی صف میں جگہ دی گئی ہے۔ جنہوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ گیلانی صاحب سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ اتنے سچے اور کھرے کہ شاید ہماری حکمران اشرافیہ ان کے مقابلے میں خاک چاٹتی نظر آئے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے درمیان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نعرہ لگاتے تھے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ سامعین پوری قوت سے اس نعرے کو دہراتے اور مقبوضہ کشمیر کی سرزمین دیر تک اس نعرے سے گونجتی رہتی۔ یہ نعرہ گیلانی صاحب کی پہچان بن گیا تھا وہ جہاں بھی جاتے یہ نعرہ ان کے ہمرکاب ہوتا تھا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے اور کم و بیش 60 سال تک اِس مقتل میں سینہ تانے کھڑے اپنے پاکستانی ہونے کا برملا اعتراف کرتے رہے لیکن کوئی طاقت انہیں ان کے موقف سے منحرف نہ کرسکی۔ بتایا جاتا ہے کہ جب گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو انہیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے گھیر لیا اور انہیں مالی و مادی ترغیبات کے ذریعے ٹریپ کرنے کی کوشش کی۔ ان سے کہا گیا کہ آپ بے شک بھارت کی حکومت پر تنقید کریں اس کی کشمیر پالیسی کے بخیے اُدھیڑیں، بھارتی فوج کے مظالم کو نشانہ ہیں لیکن ہمارا آپ سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ آپ کشمیر کے بھارت سے الحاق کو متنازع نہ بنائیں۔ اس کے بدلے میں ہم آپ کی ہر طرح خدمت کو تیار ہیں، آپ کو ماہانہ وظیفہ دیں گے، اگر حکومت نے آپ کو گرفتار کرلیا تو آپ کی فیملی کی دیکھ بھال کی جائے گی اور اس کی تمام ضرورتیں پوری کی جائیں گی۔ آپ کو بیرون ملک سفر کی بھی اجازت ہوگی۔ گیلانی صاحب نے خفیہ اہلکاروں سے کہا کہ یہ پیش کش کسی اور کو کرو وہ بکائو مال نہیں ہیں۔ گیلانی صاحب نے بھارت پر یہ بھی واضح کردیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو کسی صورت بھی جائز نہیں سمجھتے، یہ ایک غیر فطری الحاق ہے جو لازماً ختم ہو کر رہے گا اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گا۔ ان کے اس واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کو ان کا جانی دشمن بنادیا۔ انہیں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا، اس طرح انہوں نے پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزارا جبکہ عمر کا آخری حصہ انہوں نے گھر میں نظر بندی کی حالت میں بسر کیا۔
گیلانی صاحب کی پاکستانیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب ایک سازش کے تحت مظفرآباد سے سرینگر تک دوستی بس کا اجرا ہوا تو بھارت اور پاکستان دونوں کی خواہش تھی کہ افتتاحی سفر میں دوسرے کشمیری لیڈروں کے ساتھ گیلانی صاحب بھی اس بس میں مظفر آباد آئیں۔ پرویز مشرف نے حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی کے ذریعے گیلانی صاحب پر دبائو ڈالا کہ وہ دوستی بس کے ذریعے پاکستان
ضرور تشریف لائیں اس طرح نہ صرف پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا بلکہ کشمیر کاز کو بھی تقویت ملے گی۔ گیلانی صاحب نے ہر طرف سے دبائو کے بعد فیصلہ حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ پر چھوڑ دیا جس نے ان کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ گیلانی صاحب کو دوستی بس کے ذریعے پاکستان نہیں جانا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ گیلانی صاحب پاکستان آنا چاہتے تھے اور بار بار آنا چاہتے تھے، پاکستان ان کے دل کی دھڑکنوں میں بسا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی طالب علمانہ زندگی کے کئی قیمتی سال لاہور میں گزارے تھے اور اس کی یاد انہیں بے چین کیے رکھتی تھی۔ وہ اوّل و آخر پاکستانی تھے، لیکن ان کی پاکستانیت ان سے تقاضا کررہی تھی کہ وہ بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان نہ جائیں اور ایک آزاد پاکستانی کی حیثیت سے پاک سرزمین پر قدم رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی شہری ہونے کی حیثیت سے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ مزید برآں ان کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ دوستی بس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی سازش کی گئی ہے، چنانچہ انہوں نے اس سازش کا حصہ بننے سے گریز کیا۔ دوسرے کشمیری لیڈر دوستی بس کے ذریعے پاکستان آئے لیکن ان کی حیثیت دولہا کے بغیر براتیوں کی سی تھی اور پاکستانیوں نے ان کی پزیرائی سے آنکھیں چرالیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ دوستی بس چند ماہ سے آگے نہ چل سکی۔
گیلانی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قائل تھے۔ ان کے اس موقف میں کبھی تبدیلی نہیں آئی پاکستان بھی سرکاری سطح پر اسی موقف کا علمبردار تھا، چنانچہ جب جنرل پرویز مشرف نے اس موقف سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کا ’’آئوٹ آفس بکس‘‘ حل پیش کیا تو گیلانی صاحب نے اسے قبول کرنے سے گریز کیا۔ وہ اس حد تک برہم ہوئے کہ انہوں نے دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے ناراض ہو کر گیلانی صاحب کے خلاف کئی انتقامی کارروائیاں کیں۔ ان کی حریت کانفرنس کی جگہ میر واعظ عمر فاروق کی حریت کانفرنس کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا اور اس کی سرپرستی شروع کردی۔ او آئی سی میں گیلانی صاحب کی جگہ عمر فاروق کو مبصر کا درجہ دلوا دیا۔ ان تمام ناانصافیوں کے باوجود گیلانی صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جب پرامن سیاسی جدوجہد کی ناکامی کے بعد جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اور کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی فوجوں کے خلاف بندوق اٹھالی تو گیلانی صاحب نے بلاتوقف اس کی حمایت کا اعلان کیا اور سیاسی محاذ پر اسے تقویت دینے کے لیے حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے برملا کہا کہ بھارت کے غیر مصالحانہ رویے نے نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا موقف چونکہ اس کے برعکس تھا اس لیے انہوں نے ایک سمجھوتے کے تحت جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی اور خود کو نوجوانوں کی سیاسی حمایت کے لیے وقف کردیا۔ گیلانی صاحب اب ہم میں نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی حیثیت سے صبر و استقامت اور عزم و ہمت کی جو مشعل فروداں کی ہے وہ اب بھی ہر طرف اُجالا کررہی ہے اور ان کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔