چیمپئینز ٹرافی؛ پاکستانی اسکواڈ پر بھارتیوں کو تشویش کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی کیلئے پاکستان کے اسکواڈ پر بھارت کو تشویش ہونے لگی۔
بھارتی اسپورٹس جنرلسٹ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پاکستانی اسکواڈ کا ذکر کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ محض ایک اسپنر کے ساتھ گرین شرٹس چیمپئینز ٹرافی کھیلنے میدان پر اُتر رہا ہے۔
اسپورٹس تک کے پلیٹ فارم پر ایک جنرلسٹ نے اپنا تجزیہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ گرین شرٹس محض ایک اسپنر ابرار احمد کیساتھ جارہے ہیں جبکہ سلمان آغا اور خوشدل شاہ بھی بالنگ کروالیتے ہیں لیکن ریگولر اسپنر ایک ہے اور دبئی اور پاکستان کی پچز پر اسپنرز کا کردار زیادہ موزوں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم میں کئی ایسے کھلاڑیوں کی واپسی ہورہی ہے جنہوں نے طویل عرصے سے ون ڈے فارمیٹ نہیں کھیلا ہے جبکہ عثمان خان کی حالیہ پرفارمنس بھی کوئی خاص نہیں، البتہ پاکستان کا اسکواڈ سمجھ نہیں آیا ہے۔
اسی فاسٹ بولنگ میں پاکستان نے شاہین، نسیم اور حارث کیساتھ حسنین کو موقع دیا ہے، جو اچھا فیصلہ ہے لیکن صائم انجری نے گرین شرٹس کے اوپننگ پر بابراعظم کی شمولیت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انکی حالیہ فارم کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اوپننگ کی ذمہ داری مزید مشکل کھڑی کرسکتی ہے کیونکہ ٹیسٹ سیریز میں وہ مسلسل ناکام رہے ہیں۔
واضح رہے کہ آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں 23 فروری کو مدمقابل آئیں گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چیمپئینز ٹرافی
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں