تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی خوشحالی اور روشن مستقبل کی کنجی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 24 جنوری کو دنیا بھر میں تعلیم کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے اور اس کی بہتری کے لیے اجتماعی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔ اقوام متحدہ نے اس دن کا آغاز 2018 میں کیا جس کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو تعلیم کے بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم کے مواقع حاصل ہوں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری قوم کو تعلیم جیسے اہم شعبے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج بھی پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جو کہ دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان تعلیمی ترقی کے عالمی انڈیکس میں انتہائی نچلے درجے پر موجود ہے۔
پاکستان میں تعلیم کو درپیش مسائل کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کا شامل نہ ہونا ہے۔ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص بجٹ نہایت کم ہے جو کہ کل قومی بجٹ کا صرف 2 فیصد کے قریب ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے نزدیک تعلیم کو کتنی کم اہمیت حاصل ہے۔
مزید برآں ناقص منصوبہ بندی کرپشن سیاسی عدم استحکام اور دیہی علاقوں میں بنیادی تعلیمی سہولیات کی عدم دستیابی مسائل کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔دیہی علاقوں میں اکثر اسکولوں میں بنیادی سہولتیں جیسے کہ فرنیچر صاف پانی اور بیت الخلا موجود نہیں ہوتے۔ کئی اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے اور جو موجود ہیں ان میں سے بعض تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔ لڑکیوں کی تعلیم کو خاص طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے کیونکہ اکثر دیہی اور غریب گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر اس بحران کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو دہلی ایک ایسی مثال پیش کرتا ہے جہاں تعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں۔ دہلی حکومت نے ثابت کیا کہ جب قیادت میں خلوص وژن اور عوامی خدمت کا جذبہ ہو تو وسائل کی کمی کے باوجود تعلیم کے شعبے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ دہلی حکومت نے اپنے بجٹ کا تقریباً 25 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جو کہ ان کے عزم کا عکاس ہے۔
دہلی میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو جدید طرز پر تعمیر کیا گیا اور ان میں وہ تمام سہولتیں فراہم کی گئیں جو کسی بھی نجی اسکول میں ہوتی ہیں۔ اساتذہ کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی اور انھیں بیرون ملک بھیجا گیا تاکہ وہ جدید تعلیمی طریقوں سے آگاہ ہو سکیں۔
بچوں کے لیے نصاب کو مزید دلچسپ اور معیاری بنایا گیا اور امتحانی نظام میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔والدین کو اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے تعلیمی نظام میں شامل کیا گیا جس سے ان کا اعتماد بڑھا اور وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے لگے۔ آج دہلی میں والدین اپنے بچوں کے لیے سرکاری اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ نجی اسکولوں سے زیادہ معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔
کیا پاکستان یہ ماڈل اپنا سکتا ہے؟پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو دہلی کے طرز پر بہتر کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ اس کا جواب سیاسی عزم اور ترجیحات میں چھپا ہوا ہے۔ دہلی حکومت نے یہ ثابت کیا کہ اگر قیادت مخلص ہو تو تعلیم کے شعبے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں لیکن ان کا درست استعمال نہیں کیا جاتا، اگر ہمارے سیاستدان دہلی جیسی سنجیدگی دکھائیں تو پاکستان میں بھی تعلیمی شعبے کو ترقی دی جا سکتی ہے۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تعلیمی بجٹ کو بڑھائے اور اس کا کم از کم 20 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرے۔ اساتذہ کی تربیت اور بچوں کے لیے معیاری نصاب فراہم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
مزید یہ کہ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعمیر اور لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہ غربت کو کم کرتی ہے سماجی مساوات کو فروغ دیتی ہے اور سماجی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتی ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بنے تو ہمیں تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ دہلی کے ماڈل سے سیکھتے ہوئے ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں اصلاحات صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ والدین اساتذہ اور معاشرے کے ہر فرد کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اگر ہر فرد اپنی سطح پر کوشش کرے تو بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو اولین ترجیح دیں اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دقیانوسی خیالات کو ترک کریں۔ اساتذہ کو بھی اپنے پیشے کو صرف ایک نوکری کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقدس فریضے کے طور پر دیکھنا چاہیے کیونکہ ایک استاد ہی وہ شخصیت ہے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔
تعلیمی میدان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج کے دور میں آن لائن تعلیم ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز اور جدید تدریسی طریقے دنیا بھر میں رائج ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں یہ سہولت ابھی بھی محدود پیمانے پر دستیاب ہے۔ اگر حکومت اسکولوں میں کمپیوٹر لیبز انٹرنیٹ اور جدید تعلیمی وسائل فراہم کرے تو بچے زیادہ موثر طریقے سے سیکھ سکتے ہیں۔ مزید برآں آن لائن تعلیم کو دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بھی متعارف کرایا جائے تاکہ وہ بچے جو اسکول جانے سے قاصر ہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سرکاری اور نجی شعبے کے درمیان تعاون بھی ناگزیر ہے۔ نجی تعلیمی ادارے زیادہ وسائل اور بہتر تعلیمی معیار رکھتے ہیں جب کہ سرکاری تعلیمی نظام میں زیادہ تر بچے زیر تعلیم ہیں۔ اگر دونوں شعبے مل کر کام کریں تو تعلیمی معیار کو بلند کیا جا سکتا ہے۔ نجی ادارے اساتذہ کی تربیت جدید نصاب کی تیاری اور تعلیمی منصوبہ بندی میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مخیر حضرات اور کارپوریٹ سیکٹر بھی تعلیمی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ کئی ممالک میں دیکھا گیا ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیم کو محض رسمی ڈگریوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہنر مندی اور فنی تعلیم پر بھی توجہ دی جائے۔ ہمارے ہاں لاکھوں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود روزگار سے محروم ہیں کیونکہ وہ عملی مہارتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں، اگر پاکستان میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس اور مہارت پر مبنی کورسز کو فروغ دیا جائے تو نوجوان نہ صرف اپنے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کر سکیں گے بلکہ ملکی معیشت کو بھی فائدہ پہنچا سکیں گے۔ تعلیم کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ ہر فرد کو ایسا علم اور ہنر فراہم کیا جائے جو اسے خودمختار اور معاشرے کا مفید شہری بنا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لڑکیوں کی تعلیم تعلیم کے شعبے تعلیمی نظام اسکولوں میں پاکستان میں بچوں کے لیے علاقوں میں اپنے بچوں اساتذہ کی میں تعلیم کے طور پر دنیا بھر فراہم کر تعلیم کو سکتے ہیں سکتا ہے کو فروغ کو بہتر جا سکتا کیا جا
پڑھیں:
ہوم بیسڈ ورکرز کے عالمی دن پرہوم نیٹ پاکستان کے تحت اجلاس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان ہوم نیٹ پاکستان کے زیر اہتمام سندھ ہوم بیسڈ ورکرز کنونشن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن اینڈ ٹریننگ (NILAT) کراچی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر انٹرنیشنل ہوم بیسڈ ورکرز ڈے اور پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کی تحریک کے 25 سال مکمل ہونے کا جشن بھی منایا گیا۔
تقریب میں مختلف سرکاری محکموں، ورکرز تنظیموں، این جی اوز، لیبر ماہرین صحت کے ماہرین اور خواتین ہوم بیسڈ ورکرز نے شرکت کی۔ تمام شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے مسائل کے حل، منصفانہ اجرت اور محفوظ کام کی جگہوں اور حالات کو یقینی بنایا جائے۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان میں لاکھوں خواتین گھریلو سطح پر مختلف صنعتوں جیسے گارمنٹس دستکاری اور ملبوسات میں کام کر رہی ہیں، لیکن وہ آج بھی سماجی تحفظ مساوی اجرت کے تعین اور قانونی حیثیت سے محروم ہیں۔
ہوم نیٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، اُم لیلیٰ اظہر نے گلوبل سپلائی چین میں شفافیت، ذمہ داری اور ورکرز کے حقوق کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برانڈز اور مقامی اداروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام ورکرز محفوظ اور باعزت ماحول میں کام کریں۔
سرکاری نمائندوں نے حکومت کے جاری اقدامات پر روشنی ڈالی جن کا مقصد خواتین کو محفوظ اور با اختیار بنانا، لیبر پالیسیوں میں صنفی حساسیت کو فروغ دینا اور سماجی تحفظ کے نظام کو وسعت دینا شامل ہیں۔ ورکرز تنظیموں کے نمائندوں نے خواتین کی قیادت، فیصلہ سازی میں نمائندگی اور اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل کو ضروری قرار دیا۔
آغا خان اسپتال کے ڈاکٹرز نے ہوم بیسڈ ورکرز کی صحت و سلامتی کے مسائل جیسے کیمیکل کے استعمال اور طویل اوقات کار پر تشویش کا اظہار کیا اور باقاعدہ طبی معائنوں اور آگاہی مہمات کی سفارش کی۔
کنونشن کے دوران ہوم نیٹ پاکستان نے اپنی نئی مہم میرا گھر میری کارگاہ کا آغاز کیا، جو ورکرز کے حقوق کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑنے کی کوشش ہے۔ اس مہم کے تحت ہوم بیسڈ ورکرز کو معیشت کے سبز شعبے کا حصہ تسلیم کرنے اور قدرتی آفات سے متاثرہ خواتین کی بحالی میں مدد فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہوم نیٹ پاکستان نے تمام شرکاء کے درمیان پودے تقسیم کیے۔
تقریب کے اختتام پر ہوم بیسڈ ورکرز کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا گیا، جس میں سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ کی توثیق، ورکرز کی رجسٹریشن منصفانہ مساوی 177-C اور 190-C کنونشنز ILO پر فوری عملدرآمد 2018 اجرت سماجی تحفظ اور محفوظ کام کے ماحول کو یقینی بنانے کے مطالبات شامل تھے۔
کنونشن کا اختتام اتحاد و یکجہتی اور خواتین ورکرز کو با اختیار ہونے کے عزم کے ساتھ کیا گیا۔