اسلام ٹائمز: امریکی عوام درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ساتھ برآمدی منڈیوں کے نقصان کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی حکومت پر اس طرزِ فکر پر نظرثانی کیلئے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خاص طور پر تجارتی جنگ کیوجہ سے پیدا ہونیوالی داخلی بے اطمینانی اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن کی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے اپنے اتحادیوں کیساتھ تجارتی جنگ کے شعلوں کو کم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ تحریر: امیر علی ابوالفتح
کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25% ٹیرف اور چین سے درآمدات پر 10% ٹیرف کے نفاذ کے ساتھ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تجارتی جنگ کا ایک نیا دور شروع کر دیاہ ہے۔ یہ مسئلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یورپی یونین سے کچھ اشیا کی درآمد پر ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اگر برکس کے رکن ممالک نے ڈالر کی جگہ دوسری کرنسی شروع کی تو وہ اس تجارتی گروپ کے ارکان پر بھی 100 فیصد ٹیکس عائد کر دیں گے۔ امریکہ فرسٹ کے نعرے کے ساتھ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی اتحادیوں اور تجارتی شراکت داروں کے ساتھ گویا امریکی تجارتی تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ میں حکمران طبقے کا خیال ہے کہ ملکوں کے درمیان کھلے دروازے کی پالیسی اور تجارتی محصولات میں کمی بالآخر امریکہ کے لیے نقصان دہ ہوگی اور یہ کہ ملک کو گذشتہ چند دہائیوں کے راستے پرپلٹنا ہوگا۔
ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہمارا ملک اس وقت امیر تھا، جب اس نے ٹیکس عائد کیے تھے۔" ٹرمپ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے اس دور کا ذکر کر رہے ہیں، جب امریکہ نے بیرون ملک سے درآمد شدہ اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کیے تھے۔ اب تجارتی ٹیکس کے خاتمے یا نمایاں کمی کے ساتھ، امریکہ ایک بڑے برآمد کنندہ ملک سے ایک بڑے درآمد کنندہ ملک میں تبدیل ہوگیا ہے، جس کا غیر ملکی تجارتی خسارہ تقریباً 500 بلین ڈالر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، امریکی اپنی برآمد سے ہر سال پانچ سو بلین زیادہ درآمد کرتے ہیں۔ یہ صورت حال، جو برسوں سے جاری ہے، امریکی حکومتی اہلکاروں کی نظر میں ناقابل برداشت ہے اور ان کی نگاہ میں اسے ہر ممکن طریقے سے تبدیل کیا جانا چاہیئے۔
ٹرمپ کے نزدیک اس کا حل درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ کرنا ہے، اس امید پر کہ درآمدی اشیا مزید مہنگی کرنے سے ان کا حجم کم ہو جائے گا اور امریکی غیر ملکی تجارتی خسار ہ بھی کم ہو جائے گا۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اس طرح وہ امریکی مینوفیکچرنگ اور امریکی کارکنوں کی حمایت کرسکیں گے۔ تاہم، کینیڈا، میکسیکو، چین یا یورپی یونین کے رکن ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر بھاری ٹیکس عائد کرنے پر ان کی طرف سے بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے درآمدات پر اسی طرح کے محصولات عائد کرنے کے لیے ردعمل سامنے آئے گا۔ اس سے امریکی برآمدات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
دوسرے لفظوں میں ٹرمپ نے جو ٹیرف وار شروع کی ہے، وہ نہ صرف درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ امریکہ کی برآمدی منڈیوں کو بھی نقصان پہنچے گا اور دونوں طرف سے امریکی شہریوں پر دباؤ پڑے گا۔ اس حد تک کہ ٹرمپ خود امریکی عوام پر اس دباؤ کا اعتراف کرچکے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی بھی چیز نے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو تجارتی جنگ میں داخل ہونے اور اسے بڑھانے سے روکا ہے۔ ان کے خیال میں امریکی معیشت اس قدر مضبوط اور بڑی ہے کہ اس تجارتی جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر کینیڈا، میکسیکو یا یورپی یونین کے رکن ممالک امریکہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور بالآخر وہ امریکہ کی شرائط کو تسلیم کر لیں گے۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے، امریکہ بیجنگ پر سیاسی اور سکیورٹی دباؤ بڑھا کر اس ملک کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن غیر ملکیوں کے ساتھ تجارتی جنگ میں امریکہ کے اندر بھی ایک ردعمل آسکتا ہے۔ امریکی عوام درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ برآمدی منڈیوں کے نقصان کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی حکومت پر اس طرزِ فکر پر نظرثانی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خاص طور پر تجارتی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی داخلی بے اطمینانی اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن کی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تجارتی جنگ کے شعلوں کو کم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیمتوں میں اضافے ساتھ تجارتی جنگ درآمدی اشیا درآمدات پر امریکہ کے ٹیکس عائد دباؤ ڈال سکتی ہے کے ساتھ
پڑھیں:
امریکی انخلا ایک دھوکہ
اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان
عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔
امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔
امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔
وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔
آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔