تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں پیر اور منگل کو تدریسی سرگرمیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فاپواسا) سندھ چیپٹر کی جانب سے جامعات کی خودمختاری پر حکومتی حملے کی مذمت کی گئی ہے اور پیر اور منگل کو سندھ کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں تدریسی سرگرمیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔آج سندھ کی یونیورسٹیوں میں فاپواسا کی جانب سے اجتجاج کا 14 واں دن ہے، سندھ کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں پیر اور منگل یعنی 3 اور 4 فروری کو تدریسی سرگرمیوں کا مکمل بائیکاٹ ہوگا۔جنرل سیکریٹری فاپواسا سندھ چیپٹر ڈاکٹر عبد الرحمن ناگراج کے مطابق گزشتہ روز پروفیسر ڈاکٹر اختیار علی گھمرو کی زیر صدارت ہنگامی آن لائن اجلاس میں سندھ یونیورسٹیز ایکٹ میں اسٹیک ہولڈرز اور اسمبلی ممبران سے مشاورت کے بغیر کی گئی یک طرفہ ترامیم کی شدید مذمت کی گئی۔فیکلٹی نے اس اقدام کو جامعات کی خودمختاری ختم کرنے اور ان کے بنیادی اقدار کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دیا۔ فاپواسا سندھ نے اس دن کو سندھ کی جامعات کی تاریخ کا ایک سیاہ دن قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔اراکین نے تشویش کا اظہار کیا کہ جہاں مہذب معاشروں میں حکومتیں ماہرین تعلیم کی رائے کا احترام کرتی ہیں، وہیں سندھ حکومت نے آمرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے فیکلٹی کے تحفظات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ترامیم کا مقصد وائس چانسلرز کو محض بیوروکریٹس میں تبدیل کر کے جامعات کو مکمل طور پر سیاسی کنٹرول میں لینا ہے، جہاں تعلیم، تحقیق اور علمی آزادی کی بجائے سیاسی تقرریوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔فاپواسا سندھ نے کہا صوبائی وزرا اپنی ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے یونیورسٹیاں بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ فاپواسا کے اراکین نے خاص طور پر وزیر تعلیم سردار علی شاہ کی جانب سے اساتذہ کے خلاف استعمال کی گئی زبان اور لہجے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ایسوسی ایشن نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری اساتذہ پر ڈال رہی ہے جبکہ یونیورسٹیوں کے سنگین مسائل کو نظر انداز کر رہی ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سندھ اسمبلی کے سامنے بھرپور احتجاجی مارچ کیا جائے گا، اور ترامیم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی، جس کے لیے معروف وکلا سے مشاورت مکمل کر لی گئی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پاک افغان طورخم بارڈر آج بیسویں روز بھی ہر قسم کی سرگرمیوں کیلئے بند
پاک افغان طورخم بارڈر آج بیسویں روز بھی ہر قسم آمدورفت و تجارتی سرگرمیوں کے لیے بند ہے، جس کے باعثقومی خزانے کو یومیہ 25 ملین سے زائد، جبکہ تاجر و ٹرانسپورٹرز کو کروڑوں روپے یومیہ نقصان ہورہا ہے۔بارڈر بند ہونے سے طورخم سے کراچی تک ہزاروں ٹرانزٹ ٹریڈ گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، جبکہ بندش کے باعث افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی بھی بری طرح متاثر ہے. جمرود و پاک افغان شاہراہ پر سینکڑوں کڈوال پھنس چکے ہیں، جن میں خواتین بوڑھے بچے سمیت مرد شامل ہیں۔پاک افغان طورخم بارڈر کے بند ہونے پر تاجر کا کہنا ہے کہ تاجر و ٹرانسپورٹرز سب پریشان ہیں اور یومیہ کروڑوں روپے نقصان ہورہا ہے، لوڈ گاڑیوں کے ٹائر خراب ہونے لگے ہیں اور ڈرائیورز کے اخراجات ختم ہوگئے ہیں۔طورخم بارڈر بندش سے دو ہزار سے زائد مقامی مزدور و کسٹم کلئیرنگ ایجنٹس بے روزگار ہوگئے ہیں۔